جدید نسائیت کا علمی ،تاریخی،سیاسی اور فلسفانہ محاکمہ:مقدمہ

 

مقدمہ

از:ڈاکٹر محمد علی جنید

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رواں سال اس صدی کا ایک خاص سال اس لحاظ سے گردانا جاسکتا  ہے کیونکہ اس سال کئی ایسے امور اور حادثات وقوع پذیر ہوئے ہیں  جو کل عالم کے ہر فرد،جنس ،مذہب و ریاست نے بذات خود دیکھے،پرکھے اور محسوس کئے  ہیں،۲۰۱۹ کے آخری ماہ میں چین میں نمودار ہونے والی وبا کو شروع شروع میں باشندگان ِ عالم ارض نے خاص توجہ کے قابل نہیں سمجھا تھا  اور دوسری طرف جہاں تک چینی حکومت کا تعلق ہے تو جناب  خود چینی حکومت نے بھی ووہان میں نمودار ہونے والی اس وبا کو وبا کم ایک مخالفانہ پروپگینڈے اور نقص امن کی کوشش سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھیبلکہ الٹا  اسکی طرف توجہ دلوانے والے ڈاکٹر لی کو نا صرف  ڈرایا دھمکایا گیا  تھا  بلکہ کچھ حلقوں کی جانب سےانھیں  لعن و طعن بھی کیا گیا تھا۔

جبکہ  وہ بیچارہ یہ بات شاید  جانتا ہی نہیں  تھا کہ اس کے پیچھےکون کون سے حادثاتی،سازشی تصورات و حکمتیں کارفرما ہیں۔اب اللہ ہی جانیں یہ وبا امریکہ و چین کی باہمی پس پردہ سرد جنگ کے سبب نمودار ہوئی یا پھر قدرتی طور پر پھیلی،خیر ۲۰۲۰ کے آغاز پر ہی  میرے جیسے فرد کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا  تھا کہ عالمی طور پر کساد بازاری،اور معاشی بحران سرمایہ دارانہ دنیا میں  ایک عشرے بعد  اک بار پھر عود آئینگے جیسے ۲۰۰۸ میں یا  ۱۹۳۰ میں دنیا کو اس عظیم بحران نے ہلا کر رکھ دیا تھا ،ویسا ہی کچھ دوبارہ ہونے والا کا گمان ہونے لگا تھا۔

جس میں چند نادیدہ ہاتھوں نے عالمی سرمایہ سمیٹ کر تہہ خانوں میں بند کردیا تھا اور نتیجتاً اس وقت کا کثیر  دولت و سرمایہ چند ان دیکھے ہاتھوں میں جمع ہوگیا تھا جبکہ کئی بینک اور عالمی معاشی ادارے اور ملٹی نیشنل ادارے اس طرح یوں  دولت کے اپنے پس پشت غائب ہونے کی وجہ  سے دیوالیہ اور قلاش ہونے لگے تھے اور ایک کے بعد   ایک یہ دوسروں   کو بھی  لے کر بیٹھنے لگے  تھے اوپر سے سٹہ بازی اور اسٹاک مارکیٹنگ نے بھی سب کی  جان بلب کرکے رکھدی تھی ،جس سے اندازہ ہوا کہ کل دنیا کا سرمائہ عالمگیریت سے وابستہ نسل بندیوں نے کہیں سے کہیں پہنچادیا تھا اورآج یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ  چند نادیدہ  ہاتھ  اپنی  تباہ کن معاشی حکمت عملیوں اور علم معاشیات کی خود ساختہ تخلیق کردہ منصوبہ بندیوں اور سازشوں کے سبب کل دنیا کی معیشت پر حکمرانی کررہے ہیں۔

مگر پاکستان میں ۲۰۲۰ کے ساتھ ہی جس امر نے سب کی توجہ مرکوز کئے رکھی وہ میڈیا پر حقوقِ نسا کے ضمن میں ہونے والے جنگ و جدل کے میدان سخن تھے جس میں نسائیت،جدیدیت،جنسیت اور مذہب گریز عناصر کا شور شرابا،واویلا کرنا ،چیخ چیخ کر لوگوں کو خود کی طرف راغب و متوجہ کرنا نمایاں تھا،اس معاملہ  سے قبل ایک ڈرامہ میں ایک بے وفا بیوی کو اسکے شوہر  کا اس کو   ڈرامائی دھوکہ بازی پر دو کوڑی  کی عورت کہنا ،جبکہ سب کچھ غیر حقیقی اور فکشن سے زیاد کچھ نہیں  تھا اک ایسا شور شرابا اور طوفان بدتمیزی برپا کرگیا اور ،ڈرامہ راتوں رات ہٹ ہوگیا اور اپنے ساتھ فکری بحث کا ایک نیا  دروازہ مزید وا کرگیا، مابعد ڈرامہ صورتحال کچھ یوں تھی کہ اب اس بحث میں صرف ماڈرن حلیہ کی خواتین پیش پیش نہیں  تھیں بلکہ اب اس میں انکے ساتھ ظاہری حجاب و چادر میں چھپی درون خانہ مغرب زدہ خواتین بھی صف اول کا کردار ادا فرمانے لگی تھیں۔

اسکولوں کالجوں،اور جامعات کی خواتین کی خواتین سب سے زیادہ انکے پروپگینڈے سے متاثر ہونے لگی تھیں ،مگر  ہم جانچتے ہیں کہ بہ حیثیت مجموعی۹۹ فیصد مرد و عورت نے اس ڈسکورس اور بیانیہ کو اپنے اقدار و معاشرہ کے منافی قرار دیا ہے،خٰیر اسی بحث کو مارچ میں منعقد ہونے والے عالمی عورتوں سے مخصوص دن نے اور تیزگام بنادیا تھا اور اسکے ساتھ ان جدید الفکر ،جنس پرست معاشرہ گریز خواتین نے میڈیا،اور سوشل میڈیا پر ایسا طوفان بدتمیزی برپا کردیا  تھا کہ مجھے جیسا فرد بھی اس بحث کو سنجیدگی سےدیکھنے پرکھنے پر مجبور ہوگیا،حلانکہ نسائیت اور جنسیت پرستی کے لئے موضوں ماحول کی تشکیل کا مطالبہ کوئی پاکستان میں نیا موضوع نہیں تھا،مگر اس دفعہ سوشل میڈیا کی وسعت اور مغلوب الفکر، جدیدکم فہم اور  کم عمر نسل نے اسے سہ آتشہ بنادیا تھا،،سیدھی سیدھی سی بات تھی کہ بحث علمی،معقولی سے زیادہ جذباتی،نفسانی،جنسی نوعیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبیت اور مشرقیت سے قطع تعلق کرنے پر واضح طور پر مبنی نظر آنے لگی تھی۔

اس پوری بحث پر گفت و شنید سے قبل کچھ چیزوں پر غور وفکر اور تدبر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جیسا کہ اس مباحثہ کا ماحاصل یہ اظہاریہ ہے کہ  کیا اس عالم انسانیت میں صرف عورت نام کا گروہ ہی موجود ہے ،مرد نامی کوئی گروہ کیا سرے سے موجود ہی نہیں ہے؟ ممکن ہے کہ اسکے جواب میں کہا جائیگا کہ مرد کے وجود کا ہم کو انکار نہیں ہے مگر مابعد  نسا پرست گروہ کہتے ہیں کہ اگر چہ مرد بھی اس معاشرہ کا اہم رکن ہے مگر ساری (۱)بدمعاشیاں،شیطانیاں،ظلم اسی کا پیدا کردہ ہے،اور(۲) خواتین کو صدیوں سے اسی گروہ نے ہی مغلوب و مقہوربنا کررکھے ہوا ہے،(۳)اسے اسکا وہ حق نہیں دیا  گیاجسکی وہ ہمیشہ سے حقدار تھی۔

(۴)اسے لونڈی بنا کر رکھا گیا ،کنیز بنا کر رکھاگیا(۵)خادمہ بنا کر چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر مارا پیٹا گیا،جنس بنا کر بازار میں بیچا گیا (۶) اسے جائیداد سے محروم رکھا گیا (۷)حکومت و سیاست کے قابل سمجھا ہی نہیں  سمجھا گیا (۸) اسے تحصیلِ علم سے محروم رکھنے کی سازشیں کی گئیں ہیں۔

(۹)اسے وہ آزادی دی ہی نہیں گئی جسکی یہ حقدار تھی (۱۰)اسے گناہ و ثواب کے بندھنوں میں گرفتار کئے رکھا گیا (۱۰)جسکے لئے خود ساختہ اصول و ضوابط،اخلاقی اقدار ،رسم و رواج مردوں کی جانب سے وضع کئے گئے ہیں (۱۱) مساوات بھی سرے سے دونوں جنسوں میں مد نظر نہیں  رکھی گئی ہے۔

ہم اسکے جواب میں کہہ سکتے ہیں اول یہ کہ انسان کے عمومی لفظ میں جو مجموعیت پیدا ہوتی ہے وہ مرد و عورت کے مساوی،مقابل،ازواجی رشتہ سے پیدا شدہ مجموعی کلیت کی عکاسی ہوا کرتی ہے پھر یہ بتدریج ماہ و سال،کمسنی و پیری،بچپنے،جوانی ،بڑھاپے سے متمیز کی جاتی رہتی  ہے اور اس ساری بحث ، تقسیم یا تدریج میں مرد و عورت دونوں ہی جنسیں مساوی طور پر شریک سفر ہوتے ہیں ۔لہذا انسان چاہے مرد ہو یا عورت ہو، دونوں ہی  حقیقت میں ایک جیسے  نطفہ سے لوتھڑے تک ترقی کرکے ماں کے حمل میں ایک بچہ یا بچی کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ایک ہی باپ کا نطفہ ایک ہی ماں کے حملی ماحول میں اسے بچہ یا بچی کی شکل خالق کائینات  کے مقرر کردہ تخلیقی نظام کے زیر اثر تقدیر شدہ جنسوں میں تقسیم کر کے رکھ دیتا ہے،مگر اس تقسیم بندی میں حق و صداقت اسی امر میں میں پنہاں ہے کہ دوران حمل تخلیق و پیدایش میں  نا  ہی مرد کوئی  سازش کرکے کسی قسم کی تبدیلی لاسکتا  ہےاور نا  ہی عورت کسی تبدیلی و انتخاب کی اہل ہوتی ہے ،یہ سب اللہ کے تخلیق کردہ نظام تقدیر و تخلیق کی کرشمہ سازی ہوتی ہے جسے وہ اپنے اذلی و ابدی علم  و تقدیر سے مقررہ مقدار میں مقدر کردیتا ہے۔

اسلام اور اسکا رب بطور انسان اور بطور جنس مرد اور عورت کو یکساں انسان تصور کرتے ہیں،دونوں ہی گناہ و ثواب نیکی یا بدی،اچھائی یا برائی،بدصورتی اور خوبصورتی،میں اپنی اپنی جنس کے لحاظ سے الگ الگ ہوکر بھی مساوی طور پر اعمال کی بنیاد پر جنت و دوزخ میں جانے کے اہل ہوتے ہیں۔

 

لہذا بدمعاشی کرنے،شیطانیاں کرنے یا بداعمالیاں کرنے میں کوئی مرد و عورت کی تخصیص دین میں واقع نہیں ہوئی ہے،مرد و عورت اگر شادی شدہ ہوکر زنا کریں تو دونوں ہی سنگسار کئے جائنگے یہاں دونوں پر یکساں جرم و گناہ کے لحاظ سے ایک ہی سزا مقرر کی گئی ہے،اب اگر غیر شادی شدہ ہونگے تو دونوں کو ہی برابر سو کوڑے مارے جائینگے،چوری کرینگے تو دونوں جنسوں کو ہی یکساں سزا میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جائیگی،کسی پر بھتان لگانے میں مرد و عورت اعلی و اشرف دونوں جنسوں  پر یکساں  کوڑے لگینگے جیسے حمنہ بنت حجشؓ نبی اکرمؐ کی سالی محترمہ ہوں یا پھر حسان بن ثابتؓ شاعر رسول ہوں دونوں پر عایشہ ؓ پر بھتان طرازی کے ضمن  میں دیگر لوگوں کی طرح حد کا نفاذ کیا گیا تھا۔

اب فاطمہ مخزومیؓ جسی قریشی اعلی خاندان و نسب کی چوری کرنے والی خاتون  ہوں یا کمتر درجہ کا مرد دونوں یکساں سزا کے مستحق قرار پائے گئے ہیں،اسی طرح مرتد چاہے مرد ہو یا عورت دونوں کو ہی یکساں سزا ملے گی،چونکہ یہاں ذکر مرد کی شیطانیوں اور بدمعاشیوں کا ہے تو جان لینا چاہئے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے جس میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں اعمال و نیت اگر انفرادی ذاتی معاملہ ہے تو دین الہی نے اس میں کوئی جنس کی بنیاد پر مواقع کو کسی ایک جنس میں محدود نہیں کردیا ہے،عدم تفریق فطری و طبعی جنس کی بنیاد پر وظایف کار کی ہے،سورج و چاند کی اپنی اپنی اہمیت ہے چاند سورج کے تابع ہے،اگر چہ اسکا اپنا وجود ہے مگر وہ رات سے قبل روشنی بکھیرنے کا فریضہ سرانجام نہٰن دے سکتا ہے،اور سورج جسکی تخلیق نظام شمسی کو وحدت میں پرو کر کل  نظام شمسی میں زندگی پروان چڑھاتی ہے کو دن کرنے اور دن میں حیات کو برقرار رکھنے کا شعبہ دیا گیا ہے،عین ایسے عورت چاند ہے اور مرد سورج ہے  دونوں کا باہم ناطہ تعلق اور شعبہ حیات بھی ہے،سورج سے آنکھین ملائی نہیں جاتیں اور چاند نے نظر ہٹائی نہیں جاتی۔

 لہذا بدمعاشیاں  چاہے کسی بھی قسم کی ہوں خالی مرد سے مخصوص و متعین نہیں ہیں بلکہ  اس میں عورت بھی عین اپنی جنسی استعداد و قوت کے لحاظ سے ویسے ہی شریک و سہیم ہے جیسے مرد نظر آتا  ہے،مگر بحرحال تخلیقی وصف و استعداد میں دونوں میں تخلیق کے مالک نے جو فرق ودیعت کیا تھا وہ اذلی وصفی طور پر صدیوں سے نسل بہ نسل دونوں جنسوں میں منتقل ہوتا چلا  آیا ہے،اللہ نےاگر مرد کو جسمانی قوت ،تدبر،عقل،صبر،فراخی،وسیع القلبی،مستقل مزاجی میں قوی کیا ہے تو ساتھ میں  کسب،روزی،کمانے،سیاست کرنے،جنگ کرنے،علم کی ترویج،و تشکیل،عقل و تدبر،حزم و احتیاط،قوت تخلیق،ندرت طبع،قانون سازی،میں مرد کو ہی اہل قرار دیا ہے کیونکہ یہ خصایل و وظایف تخلیق فطرت و سرشتی  کے وقت ہی اسکی ذات میں پنہاں کردئے گئے تھے ،اور اسکو ان امور کا اہل قرار دیکر ان امور اور انکی فروعات کو اسکے فرایض میں شامل کردیا گیا تھا  کیونکہ خالق کائینات نے تخلیق سے قبل ان وظایف کی تبیر و تشکیل کو مد نظر رکھ کر اسکی تخلیق کی تھی،اسکی حاکمیت اگر خارج میں تھی تو عموم میں  بھی تھی، یوں وہ ریاست و خاندان دونوں کا سربراہ قرار پایا۔

دراصل آدم ؑ اور حواؑ کے واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ عورت مرد کے جسد کی ایک فرع تھی خود عین  اصل نہیں  تھی، پورانوں میں منو کے قصے و تخلیق میں بھی اسکے مماثل بھت کچھ پایا جاتا ہے۔ یہ تو جانی مانی بات ہے کہ اول آدمؑ کی تخلیق وجود میں آئی تھی اماں  حواؑ اسکے بھت بعد میں پیدا ہوئی تھیں،اور انکی یدائیش کے لئے بھی مرد کے مادہ کو ہی بنیاد بنایا گیا تھا ،آج بھی مرد و عورت کے تعلق میں عورت کا حمل ایک ایسے زندہ  حیاتی تخلیق کار آلہ کار کا درجہ رکھتا ہے جہاں مرد کا نطفہ اسکے نطفہ سے تعلق و امتزاج پیدا کرکے اللہ کے حکم سے نیا وجود تخلیق میں لاتا ہے،

یہ وصف قدرت نے مرد کو نہیں دیا ہے،جب عورت یہ دکھ سہتی ہے،بچہ کو حمل میں اٹھائے پھرتی ہے تب مرد کماکر اسکے لئے رزق لاتا ہے،اب کچھ عورتوں کا ان عموم سے کچھ خارج میں کسی اتفاق کا شکار ہونا عمومی حقایق کا انکار ممکن نہیں بنا سکتا ہے،عورت اور مرد کے تعلق سے پیدا شدہ اولاد کی تخلیق و تشکیل میں مرد کا نطفہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے،اور عورت کے نطفہ میں حیات بخش تخلیقی ووظایف کو بڑھوتری دیتا ہے،جبھی تمام آسمانی ادیان میں نسب باپ سے ہی چلتا ہے،شریعت نے جو ایک عورت کو ایک مرد سے ایک وقت میں تعلقات کو جایز طور پر قایم کرنا محبوب جانا ہے ،اسکا ایک  سبب عورت کی عزت بطور ماں،بطور سربراہ خاندان قایم کرکے اسکے بچے کے باپ کی رفیقہ حیات کے طور پر اسکی عزت کو محفوط کرنا بھی  ہے۔

عورتوں کی جانب سے شور مچایا جاتا ہے کہ مرد کو کیوں ایک سے زاید عورتوں سے شادی کی اجازت ہے عورت کو کیوں اس امر میں مساوات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ حق نہیں دیا گیا ہے غور کرو کہ ایک مرد اگر آدھا گھنٹہ میں تین بیویوں کے پاس جاکر حمل ٹھراتا ہے،اور تینوں کی زندگی میں اسکے علاوہ کوئی دوسرا مرد نا ہو اور وہ تینوں نتیجتاً اگر حاملہ ہوں تو بلا شک وہ مرد ہی تینوں کے بچوں کا جایز باپ  تصورہوگا،اب اگر ایک عورت کے پاس تین مرد آدھے گھنٹے میں جاکر اختلاط کرتے ہیں تو وہ عورت اور وہ مرد تینوں یقین سےکچھ نہیں کہہ سکتے  ہیں کہ وہ بچہ کس کا ہے؟ اس میں کیا شک ہے کہ ان تینوں سے پس پشت اسکے سوا کیا توقع ممکن ہے کہ وہ تینوں ہی اس عورت کو  اپنی داشتہ کہیں گے اپنی بیوی نہیں  مانیں گے اور اسے اپنے خاندان کا حصہ تصور کرنے سے پہلو بچائنگے،جبھی یہاں مرد و عورت میں  کثیر ازواجی حقوق کے ضمن میں وظایف کار،جسمانی ساختوں ،قوتوں اور سماجی معیارات کی رو وہ مساوات ممکن نہیں ہے جسے مرد پر قیاس کرکے وجود میں لانے کا ڈھکا چھپا مطالبہ ناقص العقل  آج کل کر بیٹھتے ہیں،اس بحث کو آگے موڑ پع مذید واضھ کیا جائیگا جب تک ذرا صبر فرمائیں۔

جبھی انسانی تاریخ مرد سیاست دانوں حاکموں،تخلیق کاروں،جنگجووں،عالموں،سائینسدانوں،اور پیغمبروں سے بھری پڑی ہے،اللہ نے آج تک  کسی عورت  کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا ہے اور  یہ ایک عمومی مسلہ اور عقیدہ تسلیم کیا گیا ہے،جس میں صرف امام ابن حزمؒ نے ذرا الگ موقف اختیار کیا ہے۔

اب مرد کی سیادت وقیادت جو اسکی جنس سے وابستہ وصف کے طور پر صدیوں سے نمایاں رہی ہے کہ مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت میں سرے سے کوئی حاکم رہی ہی نہیں ہے،نا اس سے یہ مراد ہے کہ سرے سے کوئی عورت ایسی صلاحیتوں،وظایف کار،اہلیت و قابلیت کی حامل رہی ہی نہیں ہے،واضح رہے کہ استثنیٰ کا کلیہ ہمیشہ عموم سے خارج اپنا وجود منواتا چلا آریا ہے،مگر یہ استثنائی خصوص ایک قلیل المقدار واقعہ سے زیادہ کہیں  کچھ نہیں رہا ہے۔

 چناچہ عورت ہوا یا مرد ہو دونوں اپنے عصر،حالات،ماحول اور رواج سے خارج و لاتعلق نہیں رہ سکتے ہیں،ہر شہ میں تدریج،احتیاط،حزم،و تدبر کا کردار اہم رہا ہے،  کون نہیں جانتا ہے کہ دھلی سلطنت کی رضیہ سلطانہ خاندان غلاماں کی ملکہ بن بیٹھی  تھی مگر اس نے ان دو تین سال کی ملکہ گیری کے لئے کیا کیا مشکلات برداشت نہیں کیں؟،کون کون سی قیمت نہیں چکائی؟،کیسے وہ  ایک حبشی غلام تک سے شادی کر بیٹھی تھی  یوں عورت کی حکمرانی پر چراغ پا ترکوں نے اس جلد فارغ کردیا،چاند بی۔بی بلاشبہ قابل رہی ہوگی مگر اکبر نے اسے کیسے تمام صلاحیتوں کے باوجود ناکام بنادیا تھا۔

سیاست و قیادت میں مرد و عورت ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے جو کوششیں کرتے ہیں اس میں جتنا وقار و عزت عورت کا قربان ہوتا ہے اتنا مرد کا نہیں ہوتا ہے،مرد کے پاس یا تو جسمانی قوت،ہوتی ہے یا دولت ،یا پھر خاندان،عصبیت،تعلقات،صلاحیتیں اور سازش کا وصف ہوتا ہے۔

 جبکہ عورت کے پاس سیاست میں یا کسی بھی مقابلے میں آگے بڑھنے کے لئے اسکا جنسی کارڈ نمایاں کردار ادا کرتا  نظر آتا ہے،جسکی فروخت یا جسکا تبادلہ عمل وہ مرد سے ہی  کیا کرتی ہے، جب کہ اسکے مقابل مرد ایک خاص غیرت و انا کا حامل ہے جبھی  وہ اپنی جنس کو قوت مبادلہ کے طور پر ناہونے کے برابر ہی  استعمال کرتا نظر آتا ہے،مرد کی جنسی قوت،جسمانی ہیت عورت سے الگ تھلک ہے ،جبھی اپنی طبیعی  تخصیص کار کے سبب وہ اپنے کئی ناجایز و جایز تعلقات کے باوجود اپنی گناہی حیات چھپانے میں عموماً کامیاب رہتا ہے، ویسے بھی گناہوں کے بھی کچھ اپنے ذاتی  درجات اور معیارات ہوتے ہیں،اللہ کے ہاں ہر جنس کو اپنے گناہ کا عذاب بھوگنا پڑتا ہے،لہذا اس دنیا کا ماحول  ہی اخروی حقیقت کی کھڑکی ہے،جسے نظر انداز کرکے خیالی باتیں کرنا  نسبتاً ایک آسان عمل دکھتا ہے، مگر بحرحال اس ماحول میں جو عمل  روایات سے پروان چڑھ کر رواج کی شکل  پاچکا ہے  وہ  یہ ہے کہ عورت کے جسنی تعلقات کو کھل کر وہ قبول عام حاصل نہیں ہوتا ہے اسکے برخلاف،اس ضمن میں معاشرہ مرد کے گناہ اور بدکرداری  کو سات خون معاف کے  قول کے مصداق خاص اہمیت نہیں دیتا ہے۔

 یہاں ہماری اس  بحث سے کوئی یہ تاثر قطعاً نہیں لے کہ ہم مردوں کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں کہ جو چاہے کرتے پھرو  بلکل نہیں کیونکہ چھوٹ دینا نا دینا اللہ کے ہاتھ میں  ہے  اور وہ جو بھی ہمارے لئے  حکم کرچکا وہ قابل تعمیل و عمل ہے،ہم دنیا داری کے معیارات اور اس میں رواج و روایات کی روشنی میں کچھ امور کو دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کررہےہیں جن سے یہ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ جنسی اعمال کی تفریق کے لحاظ سے مرد و عورت کے جنسی اعمال و افعال کو یکساں طور پر نا ہی  دیکھا جاتا ہے اور نا ہی کبھی  پرکھا جاتا ہے ،اور اس کی بابت بڑی بوڑھیاں نوجوان لڑکیوں کو بھت کچھ سکھاتی سمجھاتی رہی ہیں اور کامیاب مردوں کی مائیں ایسی بڑی بوڑھیوں کے اقوال کی روشنی میں ازواجی حیات کی تشکیل کرتی رہی ہیں، اس میں موجود  عدم  مساوات کافی حد تک مذہب کی پیدا کردہ  نہیں ہے بلکہ معاشی،سیاسی،سماجی نظاموں کے تضادات کے سبب موجود ہے۔

ہمیں اس امر میں شک نہیں کرنا چاہئے کہ یہ بحث سرمایہ دارانہ،عالمی مسابقتی نظام کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے جس نے غلامی کو نشاۃ ثانیہ کے قایم کردار و تصورات کے خلاف جانکر،اس میں مذید وسعت وا متداد  پیدا کرنے کے لئے  اس نرم گرم،مزدور کو بھی مرد مزدور اور محنت کار کے مقابل سستے متبادل کے طور پر بروئے کار لانے کی کوشش کی تھی ، چناچہ جسے صنعتی انقلاب کے بعد فلسفیوں ،ریاستی و جمہوری قایم کردہ اقدار نے مذید وسعت دی تو عالمی ریاستوں کو اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اب انسانی حقوق کے ذریعے انسان کی خدا اور مذہب سے آزادی کا قانونی عالمی راستہ نکالا جانا ضروری ہوگیا ہے۔

جسکے نتیجے میں مجلس اقوام اور مابعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے ایسے پہ،در پہ معاہدوں میں اقوام عالم کو رعایتوں اور امداد کے ذریعےشامل کیا گیا اور جنکی مخالفت کی ان میں ہمت و استعداد  نہیں تھی،اور جنھونے  انکے مقابل ذرا  سی بھی جرات دکھانے کی کوشش کی  تو جواب میں انکی قوت و غیرت کو قوت،خوف اور مقاطعہ کے ذریعے  توڑنے کی منظم کوششیں کی گیئں۔

 آج سے قبل دور میں مرد و عورت میں قدرتی جنسی اختلاف کے باوجود تقسیم بندی کے لحاظ سے کبھی اپنی اور غیر کی جنسی تفریق موجود نہیں تھی،خاندانی نظام نے مرد و عورت کو ماں،بیٹے،شوہر بیوی،بھائی بھن،خالہ بھانجے،پھوپھی بھتیجے،نانی نواسے کے رشتوں میں محبت و اپنائیت سے صدیوں سے جوڑے رکھا ہوا تھا،اٌس دور میں شوہر اور بیوی کے تعلقات میں یہ فکری بعد نہیں تھا کہ کوئی زمانہ قدیم اور ماضی قریب کی  بیوی شوہر کی بدسلوکی کو انسانی حقوق کے مخالف، شخصیاتی اقدار کے خلاف یا اپنی جنس پر جنسِ مخالف کا حملہ یا زیادتی تصور نہیں کیا کرتی تھی۔

کیونکہ اس مرد کی ماں ،بھن،پھوپھو اور  خالہ نے اسکی تربیت ہی ان اقدار پر قایم کی تھی کہ وہ مرد اس عورت کی اس سوچ کے عین مطابق سوچے جسکا درس یہ ہوکہ یہ تیرا مرد اور تیرا سربراہ ہے، اس خاندان،شھراور ریاست کا سربراہ ہے،اور تو اسکے گھر،جسم روح کی ملکہ ہے،جبھی اگر وہ زیادتی بھی کرے تو صبر کر جب تو اسکے بچوں کی ماں بنے گی یہ ظالم مرد   موم ہوجائیگا، اور دیکھنا یہ جلد اپنی غلطیوں کی بتدریج اصلاح کرتا  چلا جائیگا ،باقی کوئی مرد ڈھیٹ اور ہٹ دھرم،ذہنی مریض ہو تو الگ معاملہ ہےعموماً  مشاہدہ سے یہ محسوس کیا گیا ہے کہ مار پیٹ کرنے والے مرد کو بھی آہستہ آہستہ یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے گھر کی عورت بلخصوص بیوی سے اب مذید  ایسے  ناروا سلوک نہیں کرنا چاہئے  جن سے اس کی اور تیری انا مجروح ہوجائے،ویسے بھی دیکھا گیا ہے کہ عموماً ایسے قصصِ بیجا  نچلے طبقے میں ہی  عام ہوا کرتے تھے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ  ہر دور کے اعلی طبقہ میں عورت کو مرد اور اسکے خاندان میں خاص مقام حاصل رہا تھا۔

مرد اور عورت کے تعلقات میں دوری کی وجوہات عموماً مادی،معاشی،جنسی اور نفسیاتی پہلووں میں پنہاں ملتی ہے،اور یہ امور اسکے علاوہ خاندان،ماحول،ضروریات،احتیاجات،غیرت،معاشرت ،مذہب اور اخلاق پر مبنی متغیر اقدار سے بھی بنیادیں حاصل کرتی ہیں ،جبھی اس پیچیدہ جنسی اختلاف کو سمجھنے کی کوشش خالص عالمانہ بنیادوں پر کرنا ہی کسی محقق کو ذیب دیتا ہے،لہذا یہ کہنا کہ مرد ہی بدمعاش  ،اور بدمعاملگی کی واحد وجہ رہا ہے اور عورت کا اس ساری بحث میں کردار اور افعال مجھول اور بلواسطہ رہا ہے جو  درحقیقت عورت کو کمزور بنا کر سیاست کرنے والوں کا اقداری مقدمہ نظر آتا ہے۔

۲۔ اب جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے کہ مردوں نے عورتوں کو صدیوں سے کنیز،باندی اور زرخرید لونڈی نما چیز بنا کر رکھا ہوا ہے،یہ اعتراض خالصتاً صدیوں سے دنیا میں بسنے والے مردوں کی نگاہ اور نیت میں شامل نہیں رہا ہے کہ عورت کو دشمن جان کر کوئی ظالمانہ اقدام سرانجام دیتا پھرے ،کیونکہ جس طرح عورت انسانی مجمع کا اہم حصہ  رہی ہے اور اس سے مثالاً تالیاں بجانے کے ضمن میں ایک تالی کا کردار طلب کیا گیا ہے عین اسی طرح مرد کا کردار و تعلق  بھی اس تالی بجانے کی مثال میں دوسری مقابل تالی کا رہا ہے جو ہیمشہ سے    اسکا زوج اور اسکے جوڑے کا دوسرا حصہ رہا ہے۔ جو نئی نسل کی تخلیق میں ایک دوسرے کے ساتھ اذل سے اشتراک کرتے چلے آئے ہیں،چاہے وہ اشتراک ایک فعال جایز میاں بیوی کے روپ میں ہو یا پھر ،تقدیر کے طرف سے مقرر رشتوں کے روپ میں  انکا تعلق برقرار رہا ہو، یا یہ کبھی بھن کی صورت میں بھائی کے ساتھ ایک ہی خاندان کا حصہ رہے  ہوں  تو کہیں باپ بیٹے،کے مقابل بیٹی یا بھن موجود ہوں ، عین ایسے ہی چچا کے سامنے بھتیجی،ماموں کے سامنے بھانجی،اسی طرح پھوپھی ،خالہ کے سامنے انکے پیارے بھانجے بھتیجے قدرت کی جانب سے رشتوں میں منسلک کردئے گئے  ہوں۔

انسانی کٌل کو جنسی اعتبار سے اگر مرد اور عورت ،لڑکا ،لڑکی،بچہ بچی،بوڑھا بوڑھی میں تقسیم کیا جاتا ہوتو  وہیں اسکے ساتھ ساتھ  ہر جگہ دونوں جنس ایک دوسرے کے سانجھے و رانجھے بنے نظر آتے ہیں،ان  دونوں میں یہ جنسی و جسدی دوئیت پیدا کرنے والے  دراصل انسانی خوبصورت رشتہ ناطوں میں نفرت و عناد پیدا کرنے کی منظم کوشش کررہے ہیں اور یہ گھناونی  منظم کوشش جو  اس کھیل میں آج کل کھیلی جارہی ہے دراصل ہمارے خاندانی  رشتوں کو ملیا میٹ کرسکتا ہے،خاندانی نظام جیسی حسین و عمدہ  شہ کو بس دو طرفہ تعلقات اور مفادات میں مقید کرکے رکھ سکتا ہے، اور جس سے جتنا بچا جائے اتنا ہی بھتر ہے۔

 اس میں شک کی گنجایش نہیں پیدا کرنی چاہئے کہ مرد دوسروں کے لئے ہمیشہ سے جتنا چاہے ظالم وجابر و آمر ہو اسکی بیٹی،بھن،بھتیجی،بھانجی،پوتی،نواسی یا بھو  اسکے لئے کوئی مفت کا مال نہیں ہوتی ہیں بلکہ عزت وقار،افتخار اور غیرت کا سامان ہوتی ہیں،جنکے لئے قدیم قبایل اور معاشرے باہم  دست گریبان رہے ہیں ، اور انکی عزت پر ہاتھ  ڈالنا مرد کی غیرت،قبیلے کی غیرت اور ریاست کی غیرت پر ہاتھ ڈالنا سمجھا گیا ہے،بڑے بڑے طرم خان بازار میں جتنے شیر بنے رہتے ہوں اپنی  بیوی کے بستر پر بیوی کے عاشق اور ماں کے سامنے اسکا  فرمانبردار بیٹے کی صورت میں نظر آنا عام بات رہی ہے،جنگیں جہاں ان کے سبب شروع ہوسکتی تھیں تو وہیں انکی پھیلی چادریں جنگلی سے جنگلی قبایل میں جنگ رکوا کر صلح کرواسکتی تھیں۔عرب کے چند جاھل بدو جو بیٹی کو غربت و غیرت کے سبب ہلاک کردیتے تھے،وہ نا تعداد میں کل مرد معاشرے کے عکاس رہےتھے اور نا ہی اس وقت یا کسی وقت کے مہذب معاشرے نے اسکے ان اقدام و اعمال کو وسیع القلبی سے قبول کیا تھا۔یہ چند معدودے واقعات تھے جنھیں کل معاشرے کی وسعت پر وسیع کرکے لعن و طعن کا بازار گرم کرنا جایز عمل نہیں ہے کیونکہ یہ نمونے گنتی میں شاذ ونادر ہی جگہ بناتے نظر آتے ہیں۔

مکہ،مدینہ،طایف جیسے شہروں کی عورتوں کی سماجی حیات  عزت و وقار یقین جانو  کافی حد تک معقول تھا،زمانہ قدیم،کی خدتیجہؓ ہوں یا ہالہؓ،ہندہؓ ہوں یا ام جمیل ملعونہ،ام افضلؓ ہوں یا اروی بنت کریزؓ ان سب کی  قریش میں کچھ نا کچھ سماجی رفعت موجود  تھی، اسی سماج کی خواتین مابعد اسلام نبی اکرمؐ کی ازواجکے روپ میں  امھات المومنین کہلائیں،عایشہؓ کی عزت و وقار امت میں کیا ہے چھوڑیں انکے جو نخرے ہمارے پیارے نبی اٹھاتے تھے اللہ کو انکا کتنا خیال تھا قران اسکا گواہ ہے۔

۳۔جہاں تک تک کنیز باندی،بنانے کا مسلہ ہے اس مسلے کی اصل بحث میں خواتین کو کوئی واحد متاثرہ فریق نہیں رہی ہے بلکہ سب سے اول کھلے میدانوں میں دوران سفر،میدانِ جنگ میں،بازاروں میں ،قرض میں،دشمنوں کے سامنے کمزوری کی حالت میں مرد ہی اول غلام بنائے جاتے تھے،جنگ میں جو فاتح ہوتے تھے وہ اگر مرد ہوا کرتے تھے تو مفتوح بھی میدان میں مرد ہی ہوا کرتے تھے،میدان جنگ میں ہاتھ لگنے والے شکست خوردہ سپاہی بھی مرد ہوا کرتے تھے،اور ان میں سے اکثر اسیران ِ جنگ جنکا فدیہ ادا نہیں کیا جاتا تھا یا جنھیں دشمن سپاہی کے ساتھ تبادلہ نہیں کیا جاتا تھا غلام بنالئے جاتے تھے،انکے ساتھ جیسا اذیت ناک ،انسانیت شکن سلوک روا رکھا جاتا تھا وہ سلوک،وہ درد، خودی کو  وہ  تکلیف دہ کچوکے لگاتا تھا کہ جسکا احساس عورت نہیں کر سکتی ہے،بلال حبشیؓ،عمار بن یاسرؓاور سلمان فارسیؓ نے ایمان کے لئے غلامی میں جو اذیت سہیں تھہن وہ تاریخ میں اتنی معروف ہیں کہ انکی وضاحت بس یاد تازہ کرنا ہی تصور کیی جائیگی۔

اسی طرح جن غلاموں کو محل میں حرم سرا کے لئے چنا جاتا جاتا تھا،انکے خصیے و ذکر تک کتوادئے جاتے تھے،کہ کہیں وہ جنسی میل ملاپ نا کر بیٹھیں ،انکو خطاوں پر سزا دینے می ںصرف مرد ہی آگے آگے  نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ مرد کی بیوی،بیٹیاں،بھنیں وغیرہ بھی انھیں اپنی  ملکیت تصور کرکے تیسرے درجہ کا انسان تصور کیا کرتی تھیں،یاد رکھیں جس طرح مرد کنیز کا مالک ہوا کرتا تھا اسی طرح عورت بھی غلاموں اور کنیزوں کی خریدار،بیوپاری،مالکہ ہوا کرتی تھی،جبھی یہ کہنا کہ ظلم صرف عورت نامی جنس پر ہوا ہےقطعاً ایک غلط تاثر ہے۔

مرد و عورت کی ساخت،وظایف،استعداد کار میں فرق فطری و تخلیقی ودیعت شدہ ہے،انسان اذل سے کسی آسمانی راج،سامراج،معاشرت سے واقف نہیں تھا ،اس نے یہ سب باتیں یہ معاشرت،تعلقات، اور متنوع تخصیص کار ارتقا کے ساتھ ساتھ سیکھے ہیں،اور دنیا بھر کے معاشرے و ریاستیں کچھ قبایل سے ہٹ کر پدرسری نظام کے قایل و عامل رہے ہیں،سوائے چند ایک جنگلی قبایل کے ورنا قبایل کی اکثریت بھی بہ حیثیتِ مجموعی پدرسری نظام کے حامل رہی ہے ،ہاں افریقہ و ایشیا کے کچھ قبایل میں زمانہ قدیم سے تاحال مادرسری نظام کی بابت کچھ معلومات ہمیں میسر آجاتی ہیں۔

قدیم مرد نے جو ورثا اپنی نسل کو دیا اور جو بتدریج ارتقائی مراحل کرکے سب میں مشترک طور پر شامل  رہا ہے وہ خاندان ،ریاست و سماج میں  باپ،اور مرد کی سیادت کا معاملہ ہے جسے پروان چڑھانے میں اسی مرد کی ماں ،دادی،نانی،پھوپی،خالہ اور بھن کا بھی  کہیں نا کہیں  ایک  خاص کردار رہا ہے،جنھونے خود اپنی  ہم جنس  خواتین کی دماغی تربیت میں بھی یہ امر ذہن نشین کرنے کی کوشش کی  تھی کہ :اسے ہماری بیٹی مرد و عورت ایک ہی بیل گاڑی کے دو پہیے ہیں،اگر مرد شوہر کی صورت میں حاکم و مالک ہے تو اسکی ماں لے روپ میں  اسکے اوپر فایق ہے،کتنے ہی مردوں نے ریاست،سیادت ،دولت و حکومت کے خواب اس مامتا کی چھاوں میں بیٹھ کر اپنی  آنکھوں میں بچپن سے سجائے جس مامتا نے اسکی تربیت کے دوران میں اسے یہ باتیں راتوں کی لوریاں میں تھپکیاں دے دے کر سکھائیں تھیں کہ تو گھر کی مالکہ تیرا مالک مرد رات کو حکومت کرتا ہے اور تو دن رات مالکہ بنی معاملات چلاتی رہتی ہے۔

 ویسے بھی کبھی یہ مرد جب  اپنی بیوی پر گرجتا برستا تھا،تو وہیں ماں،دادی،نانی،پھوپی اور خالہ کے سامنے دبتا بھی تھا،جنسی و جسمانی رشتے کسی منجمد پتھر کی طرح کی شہ نہیں ہیں  بلکہ یہ پانی کی طرح کا مایا ہیں جو جس سانچے میں ڈالے جاتے ہیں وہی ہیت اختیار کر لیتے ہیں۔

سماجی ،خاندانی نسلی رشتے، تعلقات،عزت و احترام کے بندھنوں سے بندھے ہوئے  ہوتےہیں جہاں اختیارات ایک جگہ مرتکز نہیں ہوتے  ہیں بلکہ رشتوں کی تخصیص کار کے لحاظ سے منقلب ہوتے رہتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک لڑکی بیوی بنکر جب خاندان میں آتی ہے تو اسے  اپنےشوہر ،ساس و سسر کی سیادت مانی پڑتی ہے برداشت کرنی پڑتی ہے، اور پھر جب خود  اس کی اپنی اولاد پیدا ہوتی ہے تو  اسکا اپنے شوہر سے بندھن و تعلق جنسی تعلق سے بلند ہوکر خاندانی تعلق تک رفعت اختیار کرنے لگتا ہے،پھر بتدریج عمر کے ساتھ وہ خود اسی گھر کی بڑی بن جاتی ہے،یہ ضروری نہیں ہے کہ  اسکی کل  حیات تک اسکا شوہر زندہ رہے،یہ بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ زمانہ قدیم  کے مرد جلد لڑائی جھگڑوں،جنگ و جدل میں زندگی کی قید سے فارغ ہوجایا  کرتےتھے تو اسکی بیوی ہی خاندان کی بڑی جانی جاتی تھی،اور جب اسکی اپنی  اولاد کم عمر ہو تو اور اسکی خاندانی سیادت دیگر مرد رشتہ داروں کے ساتھ بتدریج مسلم ہوتی جاتی تھی۔

جاہل سے جاہل اور طاقتور سے طاقتور سرکش گھوڑا اپنی ماں کا اسیر ہوتا ہےیہ سنھری جملہ کل تاریخ پر بھاری جملہ ہے جبتک خاندان و انسان ہیں یہ جملہ مضبوط و محکم رہے گا،،ہاں اگر یورپ کی نقل کرتے ہوئے ہمارا خاندانی نظام ، رشتے اور  تعلقات عورت کے حقوق کے نام پر ملیا میٹ ہوگیا ہے تو سمجھیں یورپی تہذیبی روش ہماری سماجی تاریخ کو بھی لے ڈوبے گی۔

کوئی ایسی محقق تاریخ اور تاریخی نیت ہمارے سامنے موجود  نہیں ہے کہ  جو ہمیں یہ باور کراسکے کہ ماضی کا انسان صنفی مخالفت میں پیش پیش رہا کرتا تھا یا اس  کیفکر میں باولا سودائی ہوجایا کرتا تھا،وہ  نادان تو سمجھیں بس طاقت و اخلاق کی دھار پر چلتا تھا،معدودے چند افراد کے سوا،اس دور کا اخلاقی نظام عورت کو عزت و وقار اور غیرت کا تمغہ جانتا تھا اور عورت کی سلطنت خاندان کی سلطنت تصور کیا کرتا تھا، اور اسکا ماننا تھا کہ عورت ہی سماجی ،خاندانی نظام کی مھربان و دانا نگہباں ہے،ماں ،دادی ،نانی اور بڑی بھابھی ہی گھر کی لڑکیوں اور کم عمر لڑکوں کی تربیت گاہ ہیں،انکی تربیت کے بعد ہی بچہ ،بچہ سماج میں قدم رکھنے کے قابل ہوا کرتا تھا،جبھی جتنے قابل پیروی اخلاقی نمونے ماضی نے پیدا کئے ہیں انکا انکار آج کا  کوئی باشعور بامطالعہ فرد نہیں کرسکتا ہے۔

لہذا ظلم کی چکی اپنے پاٹوں کو پیستے وقت مرد و عورت کی تخصیص کی قایل نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ مرد چونکہ جسمانی و سیاسی طور پر طاقتور جانا جاتا تھا اور بحث سے براہ راست تعلق رکھا کرتا تھا جبھی ظلم و جبر،قوت کے شکار کا اولین شکار بھی مرد یا کچھ حالات میں عورت کے ہاتھوں مرد ہی بنتا نظر آتا تھا،اسکا ایک ثبوت،جنگوں،لڑائی جھگڑوں میں مرنے والوں کی عظیم تعداد ہے ،جس کی فہرست مردوں کے نام سے بھری نظر آتی ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ سرے سے عورت کے ساتھ ظالمانہ  رویہ اختیار نہیں کیا جاتا تھا،بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ انکی تعداد نسبتاً مردوں کے مقابل بھت کم ہوا کرتی تھی،اب یہ الگ معاملہ تھا کہ جنگجو ،ظالم جارح اپنے حملوں میں کھلے عام قتل عام میں جنس و عمر کی تخصیص کم ہی روا رکھتے تھے،جیسا کہ عصر حاضر کی فلموں و ڈراموں میں ان امور کی مبالغہ آمیز منظر نگاری بخوبی جا بجا دیکھی جاسکتی ہے،باقی جسکو ظلم کرکے مزا و لطف آتا تھا جو سادیت پسند،عزیت پسند نفسیاتی بیماری میں مبتلا  ہوا کرتےتھے تو وہ حضرات اپنے میلانات ،رجحانات افتاد طبع کے لحاظ سے جو انکو محبوب ہوتا تھا اسکو ظلم و جبر کا نشانہ بنا دیا کرتے تھے،ایسے افراد کو عموم میں شامل کرنا کوئی معقولی امر تصور نہیں کیا جانا چاہئے۔

۴۔ یہ اعتراض ایک کافی معقولی اور قابل تسلیم حالت کا مالک اعتراض ہے کہ عورت کو اسکا حق نہیں دیا گیا تھا،ہم یہ دیکھتے ہیں جہاں ایک طرف ترقی یافتہ مہذب معاشرے اور مذاہب میں عورت کو قبایلی و دیہی معاشروں کے مقابل نسبتاً زیادہ حقوق حاصل تھے،وہیں اسے شریک سفر کے انتخاب،جائیداد کا حق،دوسری شادی کا حق حاصل نہیں تھا ،سیاسی حق تو خیر ایک الگ امر ہے جسے خود جدید یورپی معاشرے بھی ایک صدی قبل رایج کرنے کے قابل ہوئی ہے ،انکی لاکھ اصلاحات و خواہشات کے باوجود بھی یہ حضرات وہ رنگ جمانے سے قاصر نظر آتے ہیں جسکے یہ متلاشی  ہوتے ہیں تاحال امریکہ اپنی ریاستی سربراہی کسی عورت کو تمام آذادی اور انسانی حقوق کے دعووں کے باوجود عورتوں کے نام کرنے میں ناکام رہا ہےکبکہ اسکے برخلاف اسکی مقلد ریاست پاکستان نے سربراہ حکومت سے لیکر قومی اسمبلی کے اسپیکر تک کی سربراہی عورتوں کو سونپ دی تھی،کل جنوبی ایشیا کی تین بڑی ریاستیں ،بھارت،بنگلہ دیش اور پاکستان کی صف اول کی سیاسی جماعتوں کی سربراہی اور حکومت  عورتوں کے پاس رہ چکی ہے،ہندو مذہب جو ایک عظیم تہذیب کا مذہب جانا جاتا ہے میں عورت کو اگر چہ طبقہ اعلی میں کچھ سماجی رتبہ حاصل تھا وہاں بھی مرد پتی پرمیشور،گھر کا اندر دیوتا ہوا کرتا تھا، جبکہ دیوی ستی کی پورانی کتھا کی پیروی میں  شاہی  خاندان کی شادی شدہ  رجپوت عورتیں ، اپنے فوت شدہ پتی کی چتا میں جل کر اسکے ساتھ اگلے جنم میں جنم لینے کی خواہش کے ساتھ جل جایا کرتی تھی،اگر چہ یہ کوئی باقاعدہ بڑے پیمانے پر رایج  قابل عمل رسم نہیں تھی ،مگر پورانی قصص کی رو سے مھا دیو کی پیاری  دیوی ستی کی قربانی نے وہاں کی عورتوں کے لئے  وفاداری کی ایک  اعلیٰ مگر ظالمانہ آدرش قایم کردی تھی۔

عرب میں عورت کو شہروں میں اگر چہ کافی عزت و وقار اور مال و ثروت حاصل تھی،مگر بہ حیثیتِ مجموعی بدووں کے ہاں بیٹی کی پیدایش ،حالت جنگ یا پھرغربت و افلاس کے سبب ناپسند کی جاتی تھی،بیوہ وارثوں کا مفت کا مال جانی جاتی تھی،متوفی کا بڑا بیٹا،بھائی یا کوئی اہل وارث اسے بھی اپنی ملکیت جانا کرتا تھا،وہ ایک سال تک سوگ منایا کرتی تھی،کئی جگہوں پر اسکا مقام بکروں کا پاڑا ہوا کرتا تھا،جہاں وہ روکھی سوکھی روٹی کھاتی ،گندی شندی رہا کرتی تھی،جب عدت ختم ہوتی تو بکریوں کی سوکھی مینگنیاں اپنے پر سے اتار کرکے عدت ختم کرنے کا اعلان کیا کرتی تھی۔

جمہوریت و فلسفے کے آدرش یونان میں عورت کا گھر میں رہنا ہی بھتر تسلیم کیا جاتا تھا،اسکا اور غلام کا استھان گھریلو قید خانہ ہوا کرتا تھا،اسکا کام گھریلو کام کاج کرنا ،یا غلاموں سے کام لینا ہوا کرتا تھا،یا پھر وہ  عموماً جنسی خواہش کا مخزن جانی جاتی تھی،مردوں کا کام باہر رہنا بحث و مباحثہ کرنا کم عمر لڑکوں سے دل لگی کرنا تھا،ایسا ہی رجحان آج ہمارے سندھ،پنجاب،بلوچستان ،خیبر پختون خواں اور افغانستان تک پھیلا نظر آتا ہے،کہ اوطاق میں کم عمر لڑکوں کو دل لگی کے لئے رکھا جاتا ہے،مگر کھل کر اس بات پر گفتگو نہیں کی جاتی اور نا اعتراف کیا جاتا ہے ،مگر اس قسم کی باتیں کہاں چھپا کرتی ہیں۔

روم کی عورت کو طبقہ اعلی میں آزادی حاصل تھی،جبکہ عام عورت وہاں بھی جنس لذت اور ،کام کاج کرنے کے کام آتی تھی،یا گھریلو امور کی سربراہ ہوا کرتی تھی،اسکی عزت و وقار کا تعین اسکے مرد کی سماجی،مالی اور سیاسی اہمیت کے تناظر میں ہوا کرتا تھا۔

ان حالات میں اسلام کا ارتقا گھوم کر آخری مراحل پر آکر ٹھیرااور اس نے صدیوں سے موجد عام عورت کے تمعلق ظالمانہ طور طریقوں اور رواجوں کا خاتمہ کردیا ،اسکے حقوق کو عین مرد کے مساوی تو جانا نہیں گیا مگر،کئی جگہوں پر اس عدم مساوات کو  دیگر سماجی حقوق و مراتب سے بدل دیا گیا،جو اس دور کی ہی نہیں آج کی جدید جمہوری دنیا کے عروج تک ایک نفرد،یکتا اور معتدل آدرش کا درجہ رکھتے ہیں اسے (۱)مرد سے آدہی وراثت کا حقدار ٹھرایا گیا،اسے حق دیا گیا (۲) بیوہ ہے تو دوسری شادی کرے اور اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا اسکا حق تسلیم کیا گیا،(۳)کنواری لڑکی سے نکاح کو مشروط کردیا گیا کہ اسکی رضامندی دریافت کی جائیگی  وہ اپنے ولی اور امیدوارِ نکاح دونوں کی بات کو قبول کرنے یا عدم قبول کرنے کی مجاز تسلیم کی گئی،(۴)انکے وٹے سٹے کی ممانعت کردی گئی،(۵)کنیزوں سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا،صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں انکو آزاد جانا گیا،(۶) عورت کو مرد کے گھر کا منتظم مانا گیا ،(۷)سماجی مذہبی رشتوں میں ماں کی تعظیم و وقار باپ سے دوگنا تسلیم کیا گیا ،(۸)اسکی عدت مختصر کردی گئی،(۹)جنسی ظالمانہ نکاحوں کو ختم کرکے ایک عورت کو صرف ایک مرد کی اجازت دی گئی تاکہ نسل ،و حسب و نسب کو محفوظ رکھا جاسکے(۱۰) شریعت نے حکم دیا کہ عورت کو بے راہ روی پر صرف ریاست ثبوتوں پر سزا دے سکتی تھی،عین یہی سزا مرد کےلئے بھی مقرر کی گئی،(۱۱)غیرت کے نام پر قتال کا دروازہ بند کردیا گیا،(۱۲)اس امر کی ممانعت کردی گئی کہ سوتیلی ماں سوتیلے بیٹے یا کسی شوہر سےمحرم کی نا تو ملکیت بن سکتی تھی اور اور نا اس سے نکاح ممکن تھا،(۱۳)اسی طرح بیوہ کے لئے شوہر کی وراثت سے حق مہر کے ساتھ ساتھ اسکا  آٹھواں حصہ بطور میراث تسلیم کرلیا گیا۔

باقی پاکستان ہو  یا مسلم دنیا  کے کسی ایسے ملک میں جہاں بھی عورت کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے،اسکو وٹہ سٹہ کیا جاتا ہے،غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے،اسکو کنوارہ بٹھایا جاتا ہے،قران سے نکاح پڑھوایا جاتا ہے،اسے تعلیم سے محروم کیا جاتا ہے،بیجا ذد وکوب کیا جاتا ہے،کاروکاری کیا جاتا ہے ان سب امور کا اسلام سے نا تو تعلق ہے اور نا  ہی اسلام کسی صورت میں یہ ناجایز حرام اور غیر شرعی حرکات و سکنات تسلیم کرتا ہے،نا انکی پشت پناہی کرنے کی جازت دیتا ہے۔

لہذا لبرلز بھلے بیرونی ہوں یا اندرونی انھیں دیگر ادیان اور اسلام کی تفہیم،پس منظر،مبادیات،شرعی اصول و فروع ،نصوص ،میں تفریق روا رکھنی چاہئے اور اسلام پر تنقید سے قبل جہاں ان امور کو  سمجھنا چاہئے وہیں ساتھ ساتھ  ماضی اور حال کی تفریق کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر انکو محسوس ہوتا ہے کہ اسلام عصر حاضر کی ترقی کا ساتھ نہیں دے پارہا ہے جیسا کہ ان کا  ذاتی دعوی و گمان ہے تو اس  بھث میں یہ بھی دیکھا جائے کہ کس حد تک مقامی ریتی روایات،ثقافت، کا ان  خرابیوں پر  اثر و نفوذ رہا  ہے ساتھ میں  جانچا جائے کہ دیگر ادیان و تہذیبوں کے اثرونفوذکا  ان معاملات میں کہاں تک ہاتھ ہے مذید ِ براں  متعلقہ کرداروں،مجرموں،ملزموں اور متاثریں کا واقعہ و حادثے کے پس منظر کے تناظر میں یہ غور وفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ کس تعلق و مقام کی مناسبت سے ان امور  کو بھی مدنظر رکھا جائے  تاکہ غلطی کہاں ہورہی ہے کا مداوا کیا جاسکے اور مذہب اسلام کے علاوہ اور کون سے عوامل ان کی من پسند اقدار کے سامنے روڑے اٹکارہے ہیں،کو زیر بحث امور سے خارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اب ہمیں  اس بحث کے دوسرے رخ کو بھی فراموش کرنے سے آنکھیں نہیں  چرائی چاہئیں کہ  کیا عورت کا  عصری مقام ،انکی مشرقیت ،مذہبیت اور اسلام کی طرف جھکاو کیا ترقی کے خلاف ہے تو  پھر جواب میں یہ  بھی بیان کی جائے کہ درحقیقت یہ موئی ترقی کیا چیز ہے؟ کیا ایک قدر ہے؟، کیا ایک معیار ہے ؟ تو کس چیز کا ؟ ،یا تہذیب کو جانچنے ،ناپنے کا کوئی  پیمانہ ہے؟ اگر ہے تو کس تہذیب،ریاست،قوت نے اسکو یہ قدر،اہمیت،چلن،رواج اور معیار دیا  ہے کہ دیگر اقدار کو اپنی قدر سے زیر کرکے ان پر بالائی ہاتھ رکھ سکے؟ کس نے اسے بنا کر،تخلیق کرکے ،نافذ کرکے کیونکہ کس بنیاد پر یہ حق دیا کہ دیگر تہذیبی حقوق انفرادیتوں ،صداقتوں کی نفی کرتے پھریں؟ دراصل یہ کل بحث و اقدار سامراجی مغرب کی سیاسی بالادستی کی دین ہے  باقی یہ پیمانے کیا آسمانی وحی کی دین ہیں؟ بلکل نہیں کیونکہ آسمانی وحی میں اتنی مادیت کی گنجائیش کا خیال تک موجود نہیں ہوتا ہے  جو انکی من چاہی ترقی کی ڈرامہ بازی کو الوہی جواز فراہم کرنے کے لئے کوئی سند عطا کرسکے، کیونکہ ہمارے عصری اقدار اس نثاۃ ثانیہ کی پیداوار ہیں جو اٹلی سے یورپ میں پھیلیں اور جنھونے فنون ،فنون لطیفہ ،کاروبار،تجارت،بینکاری اور تعمیرات کے لئے فلسفیانہ جواز فراہم کئے  اور جنکی پیروی بتدریج بعد ازاں  کل یورپ نے کی، پھر جس میں ،یورپی اقوام کے درمیان باہم منڈیوں،راستوں،علاقوں،نا آبادیوں کے لئے باہمی  جنگ نے اسے اتنی وسعت دے دی کہ انکی یہ  باہمی جنگیں، کل دنیا پر یورپی اقتدار کی وجہ و سبب  بن گئیں،یوں استعماری نظام کی نئی جدید داغ بیل ڈالی گئی،انسان کو ہی حق باطل کا پیمانہ مان کر اقدارکی تعمیر و تشکیل کی گئی،خدا ،وحی ،رسالت کو راسخ عقیدہ جاھل انسانوں کی اقدار مان لیا گیا،خدا کو گھر تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی،یا کہا گیا کہ یہ سب عوامل اور وجوہات انسانی ترقی کی راہ میں ہایل ہیں ،یوں ترقی حق و باطل کو جانچنے کا ایسا پیمانہ بن گیا جسکی بنیاد مذاہب کی کی نفی،شکست و ریخت پر رکھی گئی ،اسکے تصورات و اقدار کو خود ساختہ کہہ کر دامن چھڑالیا گیا اور اب اسلام و مشرق سے کہا جارہا ہے کہ انسانی حقوق ،جمہوری سیاست اور حقوق النسا کے بغیر تم کبھی ترقی یافتہ نہیں کہلائے جاسکتے ہو،جیسا کہ برنارڈ لیوس اور ہنٹنگٹن کی تحریروں سے ایسے معنی و مفہوم اخذ کئے جاسکتے ہیں۔

چناچہ عصر حاضر کی  جدید  تاریخ کو اب معاشی،ثقافتی،اور استعماری بنیاد پر لکھا جانے لگا  ہےتاکہ استعماری قوتوں کی جابرانہ حکومتوں،  اور انکےعالمی غلبہ کا اخلاقی جواز فراہم کیا جاسکے،غلام و محکوم اقوام کو یہ باربار یہ  باور کرایا گیا ہے کہ اب تک تم جہالت و اندھیرے کے دور میں زندہ تھے،اب نیا دور شروع ہوا ہے جو تم کو جہالتوں سے نکال کر روشنی میں لےآیا ہے ،ہم تم پر سختی و غلبہ تمہاری بھلائی کے لئے قایم کررہے ہیں،تم چھوٹے چھوٹے کارخانوں کو چلاتے ہو،کھیتی باڑی کرتے ہو،تمہیں زمانے کے ساتھ اگر ترقی کرنی ہے،تو ہمارے لئے اپنی منڈیاں کھولنی ہونگی ،ہم تمہارے خام مال سے دنیا کو روشناس کروائنگے،یہاں اسکو نئی جدید شکل عطا کرکے بیرونی منڈیوں میں بھیجیں گے،تم بھی کماوگے ہم بھی کمائینگے۔

مگر ہوا کیا وہ  مشرق جو ہزاروں سال سے ترقی یافتہ امیر خوشحال،دولت کی دیوی  سمجھا  جاتا تھا،غریب ہوتا گیا،اور یورپ امیر ہوتا گیا،مشرق کا خام مال کوڑیوں کے دام بکتا گیا  ،محنت کشوں،کسانوں سے رات دن کام کرواکر انکے ہاتھوں میں چند کوڑیاں زندگی کی،لھر  برقرار رکھنے کے لئے ڈال دی جاتی تھیں،اور بیرون ریاست خام اور تیار شدہ مال مھنگے داموں بیچ دیا جاتا تھا اور اگر  کسی نئی ہیت میں ڈھال کر پروسس آئیٹم کے طور پر برامد کیا جاتا تھاا تو صنعت کار امیر تر ہوتا جاتا تھا اور غریب غریب تر ہوجاتا تھا،محکوم اقوام کو کچھ اس طرح کی لولی پاپ دی گئی کہ  تمہاری یہ حالت تمہاری ماضی کی حالت و تاریخ سے بدرجہا بہتر ہے،ابن قاسم ،محمود ،سلاطین دھلی،اور مغل سب مفاد پرست مجارح و غاضب تھے،صرف ہم ہی مبنی بر حق حکمران ہیں،ہندووں کو باور کرایا گیا کہ آریا قبایل اور تم حقیقی دھرتی کے سپوت ہو،مسلمان ہر روپ میں جارح،لٹیرا ،جاھل ،کمین و خبیث تھا،جبھی  تمہیں اگر ان سے ماضی کا بدلہ لینا ہے تو  اس کے لئے ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔

جبھی چپ چاپ رہو ورنا ہمارا وکھڑا ڈنڈا تمہیں سیدھا کرکے رکھ دے گا،اب یا تو شرافت سے ہمارے بن جاو ورنا ہم ڈنڈے سےمار مار  کر تمہیں  اپنا بنا لینگے،اپنا ماضی،اپنی تاریخ ،اپنا تمدن  اب بس ماضی کا قصہ جانو،ہمیں  ہی اپنا حال اور مستقبل جانو،ہم سے ترقی کا پاٹ سیکھو تاکہ دیگر اقوام کے شانہ بشانہ چل سکو،تم صدیوں سے گدھے اور الو کی عقل و شعور کا مجموعہ رہے ہو،جبھی اپنی زبان ،چھوڑو،مذہب چھوڑو،ہماری زبان،ہماری تہذیب،ہمارا تمدن اپناو،اور ترقی کرو،کل تم تاریخی اندھیروں و گمراہی گم  تھے آج ہم تم کو روشنی میں لے آئے ہیں۔

خیر یہ باتیں کرنے والی  ہماری ماضی کی آقا برطانوی قوم بھی اب ایک سامراجی تاریخی  قصہ بن چکی ہے مگر انکی زبان تہذیب،اقدار،ثقافت،افکار و رجحانات آج بھی ہماری ان جامعات کے دم پر آج بھی  بھی زندہ جاوید  ہیں جنھیں انھونے ہماری مسلسل تشکیل اقدار کے لئے قایم کیا  تھا،لہذا ہم برطانوی دور سے زیادہ آج انکے زیادہ  ذہنی غلام بنتے جارہے ہیں جسکے لئے جدید سرمایہ داری نظام کی خاص اصطلاح ترقی اہم کردار ادا کرہی ہے،ہر سال،ہر عشرے کوئی نیا معیار ،معاہدہ اور ،عالمگیر رجحان ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ شماریات کے فلاں فلاں اعداد و شمار کی رو سے ہم دوسروں سے اتنے اتنے پیچھے ہیں،اور اتنا اتنا آگے بڑھنے کے لئے ہمیں مطلوب ہے،جبھی اس معیار کے لیے سرمایہ اور علمیت نہیں ہے تو اتنا اتنا خرچ تربیت و بنیادی ڈھانچہ پر آئیگا، اب یوں کرو  کپ سرمایہ کار کو اتنی اتنی مراعت  دے دو،یہ یہ بیچ دو،ورلڈ بینک،آئی۔ایم ایف، تمہیں اتنے اتنے شرح سود پر قرضہ دینگے۔ مگر سوچ لو کہ بدلے میں تمہیں انکی ان ان  شرایط و حکم کو پورا کرنا ہوگا،یوں یہ ترقی کا پیمانہ عالمی طاقتوں اور اداروں کے حکم پر نئی ایجادات،ٹیکنالوجی،علوم،و فنون کی نئی شکلوں اور امتداد کے سبب گھومتا رہتا ہے،اور ہماری غلامی،فکر اور بزدلی اور مرعوبیت بھی ویسے ہی اس چرخی پر گھوم کر پرانی ہوتی جاتی ہے، پرانی ترقی کی جگہ نئی ترقی کی اقدار جگہبنا لیتی ہیں، سمجھو کہ اگر کل پینٹ چھوٹی تھی تو  پرسوں ایک انچ بڑھ جاتی ہے،پھر پانچ انچ گھٹ جاتی ہے، کبھی سینہ کھل کم کھلتا  ہے تو کبھی بند ہوجاتا ہے،اب یہ ترقی کا حکم ہے،کہ کل سینہ کھولنا ترقی کی علامت تھی مگر آج ایک انچ بٹن بند کرنا ترقی جانی جاتی  ہے غرض  یہ کہ ترقی ہر پل تبدیلی،چینج،وسعت کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔

اب آئیں جدید تہذہب یا اسکی اولیں بنیادوں کی طرف یہ وہ تہذیب ہے جو عیسائیت ،یہودیت اور الحاد کے ملغوبہ سے تیار ہوئی ہے جس میں درون خانہ اسلام و توحید سے خاص قسم کی نفرت و عناد شروع سے ہی موجود ملتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اسلامی شریعت کی تربیت یافتہ تہذیب سے قبل توحید اس قدر خالص ،کامل،اور عمدہ شکل میں کبھی نہیں رہی تھی ،جبھی تمام انبیا کرام کے تربیت یافتہ صحابہ کرام اور اہل توحید  ہمیشہ بھت قلیل تعداد میں رہے ہیں ،بنی اسرائیل کی شروع سے آج تک کی  تاریخ ،الوحی کتب اور سینہ بہ سینہ روایتیں انکی کج روی سے بھری ہوئی  نظر آتی ہیں،جگہ جگہ وہ اپنے انبیا کرام کے لئے مسایل کھڑے کرتے رہے تھے اور انکی شہادتوں تک میں جری رہے تھے،ذکریاؑ،یحییؑ اور عیسیؑ اسکی کھلی مثالیں ہیں ،یہی بدبخت عیسی کی مصلوبی کی سازش میں پیش پیش رہے ہیں انھونے  ماضی میں موسیؑ،شیموئلؑ،طالوتؓ،داودؑ اور سلیمانؑ کو مسلسل تکلیف و مشکلات کا شکار کرے رکھا،انکی کتب  سماوی وقت کے ساتھ مٹ گیئں تھیں  اور جو آج موجود  ملتی ہیں وہ الحاق شدہ،ترمیم شدہ اصلی و حقیقی تعلیمات سے بہت حد تک مختلیف و تحریف شدہ ہیں ،ہاں اسی تحریف میں کچھ جگہوں کی اصل محفوظ ہیں جو قران سے کہیں کہیں مطابقت کھاتی ملتی  ہیں۔

 

 

بنی اسرائیل کے رہبان و فقہا بلا شریعت انکو جہاں چاہئے ہانکتے رہے تھے، اور یہ  انکی تابعداری میں ہانکے جاتے رہے تھے  مگر یہاں بھی ڈنڈی مارنا انکا معمول  بن گیا تھا،اب جب عیسائی انکے وارث بنے تو پال نے انھیں کافر اقوام کے عقاید کا ملغوبہ دین اچھا بنا کر دکھایا،عیسیؑ کے تربیت یافتہ حواریوں کی تعلیمات کی ترویج انکے مقابل پال کی محنت و جستجو کے سبب کم ہوئی اور پال کی رہبانیت زدہ عیسائیت پھلتی پھولتی رہی،شروع شروع میں عیسائیت  میں توحیدی رنگ یہودی اثرات کے سبب موجود تھے،اتنا انحراف واقع نہیں ہوا تھا،مصر کے ارئیس کی تعلیمات میں بھی کافی حد تک اقنام ثلاثہ کی مخالفت موجود ملتی تھی مگر قسطنطین کے قبول عیسائیت نے خداوند ثلاثہ کے ماننے والوں کو ریاستی تحفظ فراہم کردیا،جس سے اتھنائیسس مضبوط ہوتا گیا اور ایریس کمزور ہوتاگیا،مگر بحرحال افریقہ میں اسکی باقیات نبی اکرمؐ کی بعثت تک  بھی موجود تھیں ،قیاساً نجاشی اور اسکے کچھ درباری ان امور سے واقف تھے۔

یہی ورثہ اور وراثت جب پوپ کی تنظیم کلیسا تک پہنچا تو انھونے اسے مزید کفر،شرک،بت پرستی کی طرف جھونک دیا،اب کلیسا اور پوپ جو کہتے وہی شرعی قانوں مانا گیا،انھونے عورت و مرد پر کافی قدغنیں لگادیں،انسانی فطرت کے خلاف اصول وضع کردئے ،رہبانیات کو محبوب قرار دیا جانے لگا،نکاح کی حوصلہ شکنی کی گئی بعد میں جب انھیں اندازہ ہوا کہ کہیں اسکی وسعت سے  عیسائی نسل اور عیسائیت ختم نا ہوجائے، یوں نتیجتاً کلیسا کے تابعدار کم ہوتے چلے جائینگے،ایمان تو کمزور ہوگا ہی ہوگا،کلیسا کی جائیداد ،و آمدنی بھی کم ہوجائینگی اور اس طرح نکاح،کاروبار ،تعلیم و تعلم کی سرگرمیوں بھی ان سب سے متاثر ہونگیں۔

لہذا مردوں کو پابند کردیا گیا کہ کوشش کرو کہ ایک  ہی شادی کرو،اور طلاق دینے سے پرہیز کرو،طلاق کی اجازت کا طریقہ کار مشکل بنادیا گیا،کلیسا کے مقامی بشپوں،اسقفوں،اور کلیسا روم کی اجازت  نکاح و طلاق میں لینا لازمی قرار  دے دی گئی۔ایک بڑی تعداد شادی سے منحرف ہوکر کلیسا ،دیروں اور عبادت گاہوں سے وابستہ ہوگئی ،جو کہنے کو تو شادی نہیں کرتے تھے ،مگر ان میں سے اکثر پس پردہ حرام جنسی تعلقات قایم کرتے رہتے تھے،حرام بچوں کی ہڈیاں اور باقیات اکثر و بیشتر میدانوں اور ویرانوں سے دریافت ہوتی رہتی تھی،جنکے ماں باپ کا اتا پتا نہیں ہوتا تھا اور انکے عمارتوں کے دور دور تک کوئی آبادی بھی نہیں ہوا کرتی تھی۔

 بعد ازاں مسلم فتوھات تک یہ معاملات چلتے رہے پھر جب مسلمانوں سے  انکا تصادم ہوا اور چرچ کی آنکھیں کھلی تو کچھ اصلاحات کی گئیں  مگر کفر و شرک،نذر و نیاز،نوٹ کمائی کے معاملات مذہبی چھتری تلے ویسے ہی چلتے رہے جیسے ہمارے آج کل مزار اور پیر اپنے دھھندے چلاتے  نظر آتےہیں۔

 اس تاریخی اور سیاسی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاپائی ریاستیں اطالیہ و یورپ کی عظیم ترین دولت و جائیداد کا گڑھ بن گیئں تھیں،جب صلیبی جنگیں رونما  ہوئیں تو یورپ نے مسلمانون کا کردار  دیکھا ،انکی تہذیب و تمدن دیکھا ،وہاں مردوں کی نگاہ میں عورت کے عزت و وقار  کو دیکھا تو ،اعلی طبقوں میں  انکی عورتوں کا مقام  بھی بلند ہونے لگا، مگر من حیث المجموع ۱۵۱۷ کے لوتھری انقلاب و بغاوت کے بعد اور اطالیہ کی نشاۃ ثانیہ نے کلیسا کی کمر توڑنا شروع کردی تھی ،اب تک کلیسا کی جو پابندیاں عاید  تھیں وہ آذاد توریت ،انجیل و تالمود  کے مطالعے نے مذید کم کردیں لوگوں کو اندازہ ہونے لگا  کہ ہمارے پاس کوئی کلاسک ،فقہ،احادیث کی طرح کی شہ موجود نہیں ہے، اور جو  کچھ ہے وہ بس کلیسا کی مرضی و منشا ہے جسے وہ وحی اور خدا کی رضا کے نام پر پیش کررہا تھا۔

جب انجیل کی قسمیں لاتعداد ٹھریں،عیسیؑ کے احکامات کا کوئی مستند ماخذ ہی ان پر وحی شدہ ثابت نا ہوا،اور چرچ پال کا قایم کردہ استحصالی ادارہ ثابت ہوا تو کل عیسائیت پر سوالیہ نشان کھڑے ہونے لگے تو اس تناظر میں ملحدین اور اباحت پسند،نراجی طبقہ ابھر کر سامنے آیا جو روز مذہب پر حملہ کرنے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھنے لگا۔

انھیں محسوس ہونے لگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں موجود شکوک و شبھات کو منطقی ہوا دیکر مذہب کو یورپی تمدن اور حیات سے خارج کردیا جائے،دینی عالموں کی کمزوری کاکردگی،ظلم و جبر،استحصال کو ہوا بنا کر پیش کیا جائے ،اگر ایک انچ کا جرم ہوتو اسے سوفٹ کا جرم بنا کر پیش کیا جائے،چونکہ مغربی سامراجیت کل معلوم دنیا میں کسی نا کسی شکل میں موجود تھی،لہذا ان سب میں بھت سے پہلو یورپی عیسائی تہذیب و تمدن کا حصہ ہونے کے سبب سب جارح،جابر،استعماری قوتوں میں در آئے سب نے ہی کلیسا کو بھلے کیتھولک فرانس ،اسپین،پرتگال  کا ہو یا پروٹسٹنٹ،ہالینڈ  کا ہو یا پھر چرچ آف انگلینڈ اور امریکہ  ہوں کو محدود و مقید کردیا اور انھیں پابند کردیا کہ چرچ کی چار دیواری تک محدود رہو،ریاست کے تابع رہو ،ریاست سے تصادم سے گریز کرو،ورنا ریاست اسکی جگہ تمہیں کامل  مقید،محدود اور ختم کرنا  بھی جانتی ہے،مردوں کی سرمایہ داری کو اب علم نفسیات،جنسیات،جمالیات،اور حیاتیات جیسے علوم و تحقیقات نے یہ باور کرادیا کہ چونکہ سرمایہ عالمی انتقال پذیر شہ  ہے،اور سرمایہ داری بھی عالمی نوعیت کی حامل ہے،اور یہ دنیا آٹھ دس طاقتوں کے درمیان براہ راست یا بلواسطہ تقسیم ہوچکی ہے، لہذا اب منڈیاں کھلی ہونی چاہییں،تخصیص کار کو فروغ دینا چاہئے،اور سرمایہ محکوم ریاستوں سے خام مال کے ساتھ  ساتھ تیزی سے قابض ریاستوں کے بینکوں،انشورینس کمپنیوں،اسٹاک ایکسچینج تک وسعت پذیر ہونا چاہئے۔

چناچہ غلام ذہنوں کی خاص پیرائے میں ایسی تربیت کی جائے  کہ جسکا نتیجہ جسدی غلامی سے زیادہ روحانی اور فکری غلامی کی صورت میں آزادی کے بعد بھی قایم و دایم  رہ سکے،لہذا غلامی کی اب چونکہ خاص ضرورت نہیں  رہی تھی لہذا،اسکا نعم بدل سامراجیت اور اسکے ذیل تہذیبی،فکری غلامی پیدا ہوچکے ہیں ،،اور چونکہ ہم نے انسانی خدائی کا اعلان کردیا ہے،لہذا انسانی حقوق کے فلسفہ کے تحت مردوں اور عورتوں کو غلام و کنیز بنانے کو بتدریج ختم کیا جائے،یہودی سرمایہ دار آہستہ آہستہ اپنی قوم کی آزادی اور تحفظ کو ان اصلاحات کے ذیل تحفظ فراہم کررہے تھے،چناچہ انکا منصوبہ تھا کہ فلسطین کے قبضے تک تمام عالمی طاقتوں کو اپنے فکری و سرمایہ دارانہ دایرہ کار میں لاکر زیر ذمین منصوبے کو تیزی سے یایہ تکمیل تک پہنچایا جائے،چناچہ سرمایہ کو سرمایہ ہی پیدا کرتا ہے،لہذا عالمی طاقتوں کو قرض فراہم کئے جائیں جیسے اطالیہ کے میڈیچی،اپنے بینکاری نظام، اور اس میں محفوظ سرمایہ سے پوپ سے لیکر اطالوی نشاۃ ثنایہ تک سب کو متاثر اور زیر دست بنا رہے تھے ایسے ہی روتھ شایلڈ اور راک فیلر گروپ بھی یورپ تا امریکہ اپنے سرمایہ کو ریاستوں کو بھاری شرح سود پر قرضہ دیکر متاثر کرنے لگے تھے حد یہ کہ سلطنت عثمانیہ بھی سلیمان اعظم کے آخری دور سے ان سے قرضے مجبوری میں لیتی رہی تھی جو ترک اختتام تک جاری رھا،اور سلطنت عثمانیہ میں فری مینسنز کا ایک بااثر ایشیائی لاج ایک گرینڈ ماسٹر کے زیر سایہ زیر ذمین کام کر رہا تھا ایسے ہی روس کے زاروں تک انکا اثر جا پہنچا تھا ،یہ عام و خاص اشرافیہ کو ایسے ہی متاثر کیا کرتے تھے جیسے ،ٹاسٹائی کے وار اینڈ پیس کا مرکزی کردار پرنس پئیر انکے دام تزویر میں کچھ عرصہ رہا تھا۔

خیر سرمایہ سے جہاں ایجادات ،ٹیکنالوجی اور صنعت کاری اور رسل و رسائید میں سرعت سے ترقی ہوئی وہیں ان صنعتوں اور ان سے منسوب اداروں کو بھی افرادی قوت کی ضرورت محسوس ہوئی  تو عورت کو جو زراعت کی قید سے نکل کر اب روزگار کے لئے خاندانی نظام ٹوٹنے کے سبب چوراہے پر آکر کھڑٰی ہوگئی تھی کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا گیا،وہ دلفریب بھی تھی،جنسی مزے و ہوس کا سامان بھی تھی،اور اب مرد کی قید سے آزاد اپنے فیصلوں میں خودمختار بھی تھی،تو اسے مرد سے کم نرخ پر روزگار دیا جانے لگا،یوں بچا کچھا خاندانی نظام بھی باقی نا رہا اب یہ حالت انقلاب فرانس سے قبل بھی کافی ابتر ہوچکی تھی،ادیب،فلسفی اور منچلے بے چین ادھر ادھر منہ مارتے پھرتے تھے جیسے روسو کا حال تو سبط حسن بڑی وضاحت سے پیش کرچکے ہیں ،وہ کھاتی پیتی عورتوں کا دم چھلا بنا رہتا تھا،ایک سے اچھل کر دوسری کی گود میں جا بیٹھتا تھا،جیسا اسکا بچپن گزرا اس سے برا اس نے اپنی جاھل بیوی سے پیدا شدہ بچوں کے ساتھ سلوک کیا کہ اپنی حیات میں ہی انھیں یتیم خانہ بھجوادیا،یہ اسکی ایسی رومانیت بازی تھی جو حالت فطرت کا اتنا تقاضہ بھی پورا نا کرسکی تھی کہ کم از کم اپنے بچوں کی بقا کہ لئے درندوں سے ہی لڑ جاتا۔

خیر سرمایہ دارنہ انقلاب کے ساتھ ساتھ صنعت و حرفت،دستکاری،فنی ندرت طبع ،بینکاری،حصص بازاری، انششورنس ،ہوائی بحری ذمینی ذریع  نقل و حرکت،عمارتی و ریاستی تعمیراتی ڈھانچے کے شعبوں میں وسعت وسرمایہ کاری نے ایجادات کو پر لگادئے ،کم سے کم وقت میں پیداوار کے لئے ایجادات کی بڑھوتری نے موجدوں ،سائینسدانوں کو جدید صدی کا پیغمبر بنادیا،انھی شعبہ جات میں پیداوار و خدمات کے شعبہ پہلو بہ پہلو پیدا ہوئے تو خدمات کے شعبے میں عورتوں کو زیادہ سے زیادہ جگہ دی جانے لگی یہاں تک کہ اب تو اکثر ملازمتیں صرف خواتین کے نام کی جاچکی تھیں جیسا آج کا حال ہے،اسکے باوجود آج مسلسل یہ آواز اٹھتی رہتی ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مقابل کم روزگار کے مواقع حاصل ہیں،خیر انیسویں اور بیسویں صدی کے کلاسک دور میں تو یہ حال تھا کہ شہر کام کرنے والوں کی تلاش سے بھرنے لگے تھے،فیکٹریوں میں عورت و مرد باری بارہ گھنٹے کام کیا کرتے تھے ،کہیں کہیں تو بلا تعطل یہ اٹھارہ گھنٹے بھی ہوجاتے تھے،ایسے میں جدید عورت کی جانب سے آواز اٹھنی شروع ہوئی کہ انھیں سیاسی نمائندگی کا حق بھی دیا جائے ،انکی پیشہ ورانہ نشستوں میں اضافہ کیا جائے،انھیں جامعات کی ملالزمتوں ،تحقیقی مراکز میں جگہ دی جائے خیر سرمایہ دار،جنس پرست نشاۃ ثانیہ کے لئے یہ کوئی بڑا مطالبہ نہیں تھا انھیں ویسے بھی حسن،نزاکت ،لطافت میں لپٹی کام کاج  کرنے والی روزگار تلاش کرنے والی خواتیں کو لانے میں کوئی تردد نہیں تھا خیر اسکے لئے بتدریج قانون سازی کی گئی مگر ان ساری کوششوں کے باوجود برطانیہ و امریکہ جیسے مغرب کے فکری رہنما ممالک میں بھی یہ سیاسی نسائی اہداف و مقاصد بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہی کچھ کامیاب ہوپائے تھے۔

اس دوران خواتین کے حقوق کے مطالبے زیادہ تر سیاسی  و انتظامی نوعیت کے حامل تھے،ان خواتین کی اکثریت کو بحرحال فطرت کے ساتھ ساتھ اپنی حدود کا بھی بخوبی اندازہ تھا،انھونے کبھی ہماری عورت مارچ کی مغرب ذدہ عورتوں کی طرح وہ فحاشی عریانی،گالی گلوچ،لعن و طعن کا بازار گرم نہیں کیا تھا  کیونکہ انھیں ملازمت بھی انھی  مردوں کے ساتھ کرنی تھی اور تعلقات بھی انہی کے ساتھ قایم کرنے تھے لہذا عورتوں کے تحفظ کے لئے ہونے والی قانون سازی کے باوجود انھونے مرد کے ساتھ بلاشادی رہنے کو زیادہ ترجیع دی ناکہ انکی مار کٹائی پر شیرف ،و کاونٹی کی عدالتوں کے دروازوں میں شکایتیں درج کروانے میں تیزی دکھائی لہذا آج بھی یورپ کی عورت اکثریتاً قانونی شکایتوں و کاروائیوں سے بچتی نظر آتی ہے،ایک بوائے فرینڈ چھوڑا دوسرا پکڑا جب شادی ہی نہیں ہے تو پلو میں بندھنے کی مجبوری بھی نہیں ہے پھر جب پہلے سے تعلقات صحیح ہوئے تو دوسرے سے لڑ کر پہلے کے پاس چالی گئی  یہ اسکی عصری تعلقاتی منطقیت ہے ،کیونکہ وہاں معاملہ اور معاشرہ دونوں ہی ہمارے معاشرے سے  الگ تھے۔

دوسری بات یہ کہ چونکہ وہ مغربی اور  یورپی قوم سے تعلق رکھتی تھیں لہذا یہ خواتین کسی احساس کمتری اور دوغلیت کا شکار نہیں تھیں،انکو مغربی یورپی ہوتے ہوئے کبھی ایشائی،افریقی ہونے کا جنون بھی نہیں چڑھا تھا ،جیسے ہماری خواتین کو انکی خام اتبع میں چڑھا ہوا ہے،کیونکہ انکی نیت مقامی اور یورپی نوعیت کی حامل  تھی،تو انکو کسی بیرونی طاقت و قوت سے مال،مقام و روزگار کے لئے لینا دینا نہیں تھا ،انکے مطالبے ذاتی مقامی ہونے کے ساتھ خالص انکی ثقافت کے عین  مطابق تھے جبکہ ہماری نسا پرستوں کی فکر،حلیہ۔زبان،روش،تہذیب و تمدن،تعلیم و تربیت سب کچھ بیرونی،مغربی و خارجی  نوعیت کا حامل ہے،جسکی موضوعیت فطری نہیں کسبی مفادیت میں ڈھلی ہوئی ہے،اس روش کی ظاہریت جس عینی موضوعیت پر استوار ہے وہی خالصتاً مقامی فکری  نہیں بلکہ پروپگینڈہ ذدہ  ترغیب و تحریب شدہ موضوعیت  ہے جسکا سانچہ مغربی فکری ڈھانچہ کی تقلید میں پکا کر بنایا گیا ہے ،جبھی اسکی ظاہریت اسی سانچے کی موضوعیت میں ڈھل کر وہ نظر آرہی ہے جیسا یہ مغٖربی مقلد ذدہ خواتین الاپ لے کر اپنے بے سرے گانوں میں بیان کرہی ہیں۔

 

چناچہ  حقیقی و فطری طور پر مشرق و مغرب کی عوتوں کے کلاسکی مستند پس منظر ہمیشہ ایک دوسرے سے باہمی مختلیف رہے ہیں اور  یہ ہماری برطانوی یورپی غلامی کی باقیات ہیں جنھونے یہ تقلید زدہ ماحول ہمیں مغربی بنیادوں پر قایم شدہ جامعات کے ذریعے  سکھایا،اور ایسا سکھایا کہ ہمارے بلاواسطہ مغربی برطانوی غلام آبا و اجداد نے بھی غیرت کے ہاتھوں اس ذہنیت کو رد دیا تھا اور پھر اس  آزاد وطن کے  حصول کے لئے جدوجھد کی تھی۔جسکا نتیجہ اس خطہ ارض کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

 کوئی باشعور فرد کیسے اس حقیقت سے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے کہ عورتوں کو اپنے لئے جتنے مناسب حقوق درکار تھے وہ اس سے زاید بتدریج  لے چکی ہیں بھلے اسکے لئے انکو فطرت،تہذیب ،ثقافت،مذہب و ریاست سے بغاوت ہی کیوں نا کرنی پڑی تھی،گزرشتہ دو ،تین صدیوں سے بتدریج سرمایہ دار،خدا بیزار ریاستوں نے خواتین کو حقوق عطا کرنے کا  غیر مختتم سلسلہ شروع کیا ہوا اور  جسکے باوجود  انھونے مرد کی ذات کو مورض الزام قرار دینے کی روش اختیار تاحال اختیار کی ہوئی ہے،اور اس ضمن میں اس امر کو سرے سے فراموش کردیا جاتا ہے کہ یہ مرد ایک بچہ سے عمر کے مراحل گزارتا ،جسمانی ذہنی،شعوری نمو و بڑھوتری اختیار کرکے جتنے روپ اپنے بڑھاپے تک اختیار کرتا ہے اسکی تشکیل و ترویج میں اسکے گھرانے کی خواتین بلخصوص اسکی ماں،دادی ،نانی،پھوپی۔خالہ اور بڑی بھن نما رشتوں کی منتقل کردہ خاندانی و اخلاقی اقدار کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔

پھر یہ بھی مت بھولا جائے کہ مرد کی انا ،تشخص،خودی ،ذمہ داری،اور غیرت نما خصایل، وظایف اور دیگر خصوصیات عورت سے بہت مختلیف واقع ہوتی ہیں،وہ اپنا غم درد،مجبوری عموماً خود پر بھی آشکار کرنے سے بچتا ہے،اپنے آنسو،مشکلیں،درد و کرب چھپاتا رہتا ہے،اور وہ اگر عموماً انھیں  کسی پر آشکار کرنا چاہتا ہے تو وہ اسکی ماں ہوتی ہے یا کبھی کبھار بیوی ،یا پھر گھرا دوست ،اسکی گھٹن دوران خانہ اسکی موت کا سامان بھی پیدا کردیتی ہے،عورت کو لگتا ہے اسکے ساتھ ظلم ہورہا ہے، حلانکہ  ظلم کوئی جنسی طور پر کسی خاص جنس سے وابستہ حالت،کیفیت ،اذیت و سزا کا نام نہیں ہے،یہ ایک معروف مطلق اذیت و جرم ہے جو کوئی بھی کسی پر قطع نظر تفریق جنس وارد کرسکتا ہے۔

اخبارات،تاریخ اور واقعات و حادثات کا مطالعہ،مشاہدہ و تجزیہ کرکے دیکھ لیں مرد پر سب سے زیادہ ظلم ہوتا ہے،اسکا قتل ہوتا ہے،اسکو لوٹا جاتا ہے،اسکے مال عزت و وقار پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے،اور یہ کارنامہ بھی مردانہ ذات ہی عموماً سرانجام دیتی ہے،سادیت پسند،اذیت پسند،انا پرست،نرگسیت کا شکار مالیخولیائی عورتیں بھی بڑی ظالم واقع ہوتی ہیں جنکی سازشیں بڑے بڑوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہیں اور یہ  وہ کارنامے بھی  عورتیں ہی مرد کی تقلید میں دوسری عورتوں کے ساتھ جنکے حقوق پر عورت مارچ والیاں پریشان ہیں کے ساتھ ہی سب سے زیادہ روا رکھتی ہیں،خطے ،رشتوں،ثقافتوں،تہذیبوں اور اقدار کے ساتھ ان میں تفاوت آتا رہتا ہے،یورپ کی عورت کو عموماً ساس نند،بھو جیسےمعاملات سے خاندان بیزار تہذیب کے سبب خاص لینا دینا نہیں ہوتا ہے،مشرق کی عورت کے لیے اپنی ہی جنس کے یہ رشتے سب سے زیادہ اذیت کا تعلق ہوتے ہیں جبکہ یورپ اور امریکہ میں عورت کو یہ یاتو بوائے فرینڈ کی دوسری فرینڈ کی شکل میں بری لگتی ہے یا پھر کسی ذاتی پیشہ وارانہ تعلق کے سبب بری لگتی ہے۔

حقوق النسا کی علبردار خواتین بھت محدود  حد تک  نسائی علمی ڈسکورس کی علمیت سے واقف حال ہوتی ہیں انکا علم زیادہ سے زیادہ سماجی علوم و ادب کے دایرہ کار کے کسی مخصوص پہلو کا آئینہ دار ہوتا ہے،اس قسم کی زیادہ تر خواتین یا تو صحافت سے تعلق رکھتی ہیں یا پھر ادب و وکالت سے انکا تعلق ہوتا ہے، ان میں زیادہ علمی پروفیشنل طبقہ کم ہی پایا جاتا ہے،پھر یہ مخصوص خواتین ایک خاص مخصوص ذہنیت کی حامل  ہوتی ہیں اور بغاوت ،چاہے سماج سے ہو یا مذہب و ریاست سے انکو انکی نفی  کرنا ہی  بھادری نظر آتی ہیں،انھیں  اپنے پیارے راج دلھارے ویسٹرن ڈسکورس کی سطحی سی معلومات حاصل ہوتی ہے،اسکی پیچیدگیاں  ہوں یا مبادیات انکی انھیں زیادہ خبر نہیں ہوتی ہے،چناچہ انکے زیادہ تر حوالے و دلایل یا تو رومانی جذباتیت پر استوار ہوتے ہیں یا پھر وہ اقوام متحدہ  اور اسکی ذیلی اداروں کے منظور کردہ پروٹوکولز،چارٹرز ،کنوینشنز،قرداروں پر استوار ہوتے ہیں،اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر ،بیجنگ کانفرسزز وغیرہ کی روئیدادیں اور تقاریر انھیں بھت محبوب لگتے ہیں۔ پھر اسکے بعد مختلیف ریاستوں میں خواتین کو عطا کردہ حقوق،انکی حالت زار کے حوالے بھی انکے کام آتے رہتے ہیں ،کچھ  موصوفائیں ظلم وجبر کے اعداد و شمار جو مخصوص اداروں،حکومتی و غیر حکومتی انجمنوں کے محدود سیمپلز،و  سیلیکٹیڈ مواد پر دارومدار کرتے ہیں کو بھی پیش کرکے گفتگو میں جان پیدا کرنے کی کوشش  کرنا عدمہ دکھتا ہے۔

 دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کو آج جتنے حقوق مل گئے ہیں وہ ایک عالمی منصوبے کا حصہ ہیں اور عالمی ریاستیں اس ضمن میں امریکہ و یورپی قوتوں کی نقالی کرتی نظر آتی ہیں،ان خواتین کی نگاہ میں ذاتی،ملکی،یا مذہبی تہذیب،و ثقافت اور ان سے تشکیل کردہ اقدار کی کوئی خاص اہمیت ہوتی نہیں ہےاور نا انکو فنڈ کرنے والی پس پشت حکومتوں و انجمنوں کو اس سے خاص دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ جنکو ذمہ داریاں سونپ رہے ہیں وہ کسی قانون،قدر ،اخلاق ،ثقافت و تہذیب کو اہمیت دیں،مگر ان سب کو یہ مت بھولنا چاہئے کہ مغرب کے چوٹی کے مفکرین دوسری ثقافتوں و تہذیبوں کی اہمیت کو نا صرف آج کل تسلیم کرنے پر مجبور ہیں بلکہ ثقافتی وابستی کی قومی اتحاد میں اہمیت کو خاص مقام عطا کررہے ہیں۔

تہذٰیب ریاست کی فرع یا اساس ہے ،اتنا تو طے ہے کہ ہذبیت ہو یا مہذبیت ہو یا تہذیب ہو یہ سب ریاست سے وابستہ مباحث و صفات ہیں ،اور ریاست کی حدود میں اسکے اقتدار اعلی سے  ماخوذ خاص ثقافت اسکے کلی وجود کا اسکی قومی زبان کے ساتھ ملکر ایک  خاص رنگ ،ڈھنگ و قدر میں نظام قایم کرتی ہے۔ جسکی بنیاد پر وہ دیگر ریاستوں سے متمیز کی جاسکتی ہے،باقی علاقائی و صوبائی ثقافتیں لوگوں کو ایک اتحاد کے ذیل رعایت ہوتی ہے،مگر ریاست کا وجود و اتحاد ان  چھوٹی اکائیوں کی تشخصی جنگ سے وحدت کھو سکتا ہے،لہذا کوئی حقوق نسا کی علمبردار جاھل  جذباتی ہوکر تو بیرونی اقدار و ثقافت کی تقلید کرسکتی ہے ،مگر انا خودی،تہذیب،ثقافت و اقدار کی مداح مستقبل بین عورت اسکو کبھی قبول نہیں کرسکتی  ہے،کیونکہ یہ اسکی نئی نسل کے معدوم کرنے کی سازش بھی ہوسکتی ہے ،اور اسکے وجود و ارتقا سے نئی نسل کے تغافل کی ابتدا بھی  ہوسکتی ہے،

 ہم جانچتے ہیں کہ یورپی تہذیب کے عروج کے ساتھ  ہی اسکے زوال کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا،اس ضمن میں بکلے ،سے لیکر ٹواین بی تک اور برنارڈ لویئس سے ہنگٹنگٹن تک اور مشرق میں  سید قطب  سے مودودی تک سے لیکر امریکی جاپانی نسل کے حامل فوکویاپا تک کو ان مسایل کی فکر تھی،محمد  قطب کو اس امر کا اتنا احساس تھا کہ انھونے دو کتابیں انھی مباحث کے کئی پہلووں کی عکاسی کے لئے لکھ ڈالیں  الحمداللہ دونوں ہی اوردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں جنکے نام ہیں جدید جاہلیت اور اسلام ا ور جدید ذین کے شبھات،ایرانی نژاد مدبر و محقق،سید حسین نصر[1] کی کتاب بھی اس ضمن میں پڑھنے کے قابل شہ ہے،باقی نومسلم علما و محققین جو جدیدیت کے معاشرے سے نکل کر جدیدیت کے خلاف جھاد کرنے میں آگے آگے رہے میرا اشارہ محمد اسد،ماما ماڈیک پکتھیال،مریم جمیلہ،گرین،اور جناب ڈاکٹر بلال فلپ کی طرف ہے کی کتب و تقاریر کا مطالعہ و سمع قابل توجہ ہیں۔

 جدید علم سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر افراد و طلبہ میں سے کون ہنٹنگٹن کو نہیں جانتا ہے اسکی کتاب گذرشتہ  آدھی صدی کی نمایاں و مقبول ترین فکری کتاب رہی ہے،جسمیں اس نے تہذیبوں کے تصادم کے اپنے موقف کو ٹواین بی اور برنارڈ لوئیس کے علمی خوف سے پیدا کرکے اجمال سے تفصیل میں لےآیا  ہے سے  واضح ہے کہ اسے مسلمانوں کی بڑہتی آبادی و پھیلاو پر بڑا درد و خوف محسوس ہورہا  ہے،اسکے مطابق امریکہ کو اپنی انفرادیت کو یورپی انفرادیت میں رہتے ہوئے قایم کرنا چاہئے،اسکے مطابق جدیدیت و مغربیت الگ الگ شہ ہیں انیں ایک جیسا  نہیں جانا جائے،جدید بحث و جنگ اگر چہ ریاستی تہذیبی تصادم کے دایرہ کار میں ممکن ہے مگر اصل انکی دوران خانہ ثقافتیں تاریخی ثقافتوں و مذہبی ثقافتوں سے جوہری روح حاصل کر رہی ہیں اس ضمن میں اسکا درج ذیل اقتباس کتاب کی جان کہا جاسکتا ہے،جسے میں پندرہ سال قبل تو صحیح سمجھ نہیں سکا مگر اپنی نئی اختیار کردی مطالعاتی  حکمت عملی  کی رو سےکہ فکری کتابیں فوراً ایک سانس میں نا ختم کرو بلکہ آہستہ آہستہ سمجھ کر پڑھو مگر ان سے قبل فلسفہ ،تاریخ،اورعلم کلام میں معقول دسترس ضرور حاصل کرلو لہذا دس سالوں بعد دوبارہ اس کتاب کو پھرموجودہ حکمت عملی سے پڑھنا شروع کیا تو پہلے باب میں ہی یہ اقتباس سامنے آیا جو میری بحث سے کافی میل کھاتا نظر آتا ہے: میری آپ حضرات کو دعوت ہے کہ ذرا غور و فکراور تدبر کے ساتھ اسکی بات کو پڑھیں اور سمجھیں:

 

 

 

 

 

 

 

سموئیل پی ہنٹنگٹن ثقافتی اہمیت و انفرادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

 

اس نئی دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ سب سے زیادہ غالب ترین اہم اور خطرناک ترین جھگڑے سماجی طبقوں امیر و غریب یا دوسرے معاشرتی اعتبار سے قایم شدہ گروہوں کے درمیان نہیں پائے جاتے ہیں بلکہ یہ جھگڑے درحقیقت محسوس یہی ہوتا ہے کہ ثقافتی اکائیوں سے تعلق رکھتے گروہوں کے درمیان رونما ہونگے[2]۔

قبایلی جنگیں اور نسلی جھگڑے[3]   بھی درون خانہ تہذیبوں کے اندر ہی  رونما  ہونا ممکن نظر آتے ہیں،تاہم مختلیف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی ریاستوں اور گروہوں کے درمیاں تشدد کے فروغ پانے کے امکانات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں کیونکہ ان تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی دوسری  ریاستیں اور گروہ بادی النظر میں اپنے ہم رشتہ ملکوں کی مدد کرتے رہتے ہیں[4]،جیسے صومالیہ میں ہونے والا قبایلی خونیں تصادم ظاہراً وسیع تر جھگڑے کا امکان پیدا نہیں کرتا ہے ،جبکہ کچھ حد تک روانڈا میں رونما ہونے والے خونی تصادم دوسری طرف دیگر افریقی ممالک یوگینڈا،زایر اور برونڈی کو کچھ حد متاثر کرنے کے ضمن میں ایک معمولی وسعت سے زیاد کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔

لیکن یہیں اگریہ معاملہ بوسینیا،قفقاز،وسطی ایشیا،یا کشمیر میں رونما ہوانے ولے جھگڑے و ہنگامے، تہذیبوں کے درمیاں خونی تصادم سے بڑھ کر بڑی جنگوں میں تبدیل ہونے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں،جیسا کہ  دیکھا گیا تھا کہ یوگوسلاویہ کے جھگڑوں میں  روس نے بوسینیائوں کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کی تھی اسکی وجہ میری نظر میں نا تو نظریاتی ہے اور نا ہی سیاسی طاقت و معیشت بلکہ اسکی وجہ ثقافتی رشتہ داری ہے[5]۔

داکلیو ہیول کا کہنا ہے کہ:

ثقافتی جھگڑے بڑھ رہے ہیں اور تاریخ کے کسی زمانے سے زیادہ آج کے دور میں زیادہ خطرناک ہوچکے ہیں۔

اسی بحث کو ژاک ڈیلورس اس اتفاق کہ ساتھ کو آگے بڑھاتا ہے کہ:

مستقبل کے جھگڑے  معاشی یا نظریاتی کے بجائے ثقافتی  عوامل کی بنا پر وقوع پذیر ہوں گے۔

لہذا سب سے زیادہ خطرناک ثقافتی جھگڑے  وہ ہیں جو تہذیبوں[6] کے درمیاں تقسیمی خطوط کے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں،سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں ثقافت فیصلہ کن اور اتحاد پیدا کرنے والی فیصلہ ساز قوت بن چکی ہے،بھلے لوگ نظریاتی بعد کا شکار ہوئے ہیں مگر بلآخر ثقافتوں[7] نے انھیں یکجا و مربوط کردیا ہے جیسے دونوں جرمن حصے یکجا ہوگئے۔دونوں کوریائی حصے اور چینی منقسم علاقے ایک ہونے کے لئے کوشاں ہیں[8]،معاشرے نظریات یا تاریخ کے ہاتھوں متحد ہوتے ہیں لیکین تہذیب انھیں منقسم کردیتی ہے،جیسا کہ سویت یونین یوگوسلاویہ ،بوسینیا جیسے علاقوں میں تناو کو پروان چڑھاتا رہتا ہے،اور جیسا معاملہ یوکراین،نایجیریا،سوڈان،ہندوستان سری لنکا  اور کئی دوسرے معاشروں کے معاملے میں ہوتا ہے[9]۔

چونکہ میری اصل  بحث تہذیب و ثقافت نہیں ہے ،انکا ذکر انکی اہمیت و افادیت اور بحث کے تناظر میں برسبیل تذکرہ آگیا ہےجب اس موضوع کا اصل مقام آئیگا وہیں اسی اجمال کی تفصیل پر مفصل کلام کیا جائیگا،یہاں اس گفتگو سے بحرحال اتنا تو ایک ہوشمند انسان کو سمجھنا چاہئے کہ ہر قوم و ریاست کچھ اجزائے ترکیبی سے متشکل ہوتی ہے،ہر قوم و ریاست کی ایک واحد تہذیب و ثقافت ہوتی ہے جو انھیں دوسروں سے منفرد بناتی ہے،جبکہ اسکے ذیل کئی نچکی سطح کی نسلی،لسانی وحدتیں و ثقافتیں بھی پائی جاسکتی ہیں ،یہ نسبت تعلق و رشتہ داری کی بحث اپنی جگہ مگر ہوسکتا ہے کہ ایک قوم پرست مقامی ثقافت والا اپنی ثقافتی فرد کو کچھ رعایتیں دیتا نظر آتا ہو،مگر اتنا بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ایک ہی دیہی،صوبائی مقامی ثقافت والا دوسرے فرد کو جو اس سے سارے معاملات میں ثقافتی رشتہ و ناطہ رکھتا ہو جب اس لئے قتل کردے کہ وہ اسکے دین و مذہب سے الگ ہو اور اسکے دین و مذہب کا دشمن و مخالف ہو  تو یہاں   ایسا بھی ممکن ہے کہ دوسرے قوم پرستانہ رجحان والے کے لئے اسکے دینی خصایل وفضایل دوسرے دنیاوی ،مفاداتی  امور سے کم اہم ہوسکتے ہیں مگر انھیں اول الزکر  وجوہات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ تہذیب و ثقافت کے محققین نے چاہے وہ بکلے،اسپلنگر،ٹواین بی ،لیوس یا ہنتنگٹن ہوں یا پھر،یعقوبی،مسعودی،البیرونی،اور خلدون کیوں نا ہوں عصبیت کی مقامیت و قوت کے ساتھ ساتھ مذہب کی برتری و بالاتری کو تسلیم کیا ہے، جبکہ کلاسیکل  ابن خلدون نے  تواپنے مقدمے میں اس بابت کافی نفیس بحثیں کی ہیں۔

مسلہ یہ نہیں ہے کہ تم کیا چاہتے ہو مسلہ یہ ہے کہ تم مذہب میں رہ کر کیسے مذہب اور اپنی خواہش نفس دونوں کے ساتھ کیسے سانجھے داری کرسکتے ہو کیسے دونوں کو منافقت سے باہم ساتھ لیکر مخلوط تصور سے اپنی حیات کی تشکیل کرسکتے ہو،ندرت طبع کا مطلب یہ نہیں  ہےکہ مذہب کی یا آبائی تہذیب کی نفی بھی کرو اور اس سے فواید بھی حاصل کرو،پھر ساتھ ساتھ  اپی مرضی اور ورژن کا مذہب پانے و قایم کرنے کے لئے باولے  بھی ہوتے جاو،ہنٹنگٹن کے مطابق مذاہب کا تشکیلِ تہذیب میں بھت اہم حصہ ہے،اس سے قبل مطالع تاریخ میں ٹواین بی نے جو تہذیبوں کی درجہ بندی بیان کی تھی اسکے ضمن میں پھیلتے مباحث بھی کچھ اس کیس کی مضبوطی کو پایہ دوام فراہم کرتے رہے ہیں،ول ڈیورانٹ جس کا رواں صدی میں بھت حوالہ جاتی اثر و نفوذ قایم ہے وہ بھی اسکی نفی نہیں کر پاتا ہے۔

اتنا طے ہوگیا کہ نشاط ثانیہ کے بعد کئی تہذیبی پراجیکٹوں نے انسان کے دور روشن خیالی،منطق و عقل کی پیمایش و افزایش پر بحث کو نیا دوام دیا جس سے انسانی الوہیت کی وسعت کو نئی روشنی اور نئی نمو ملی ،مگر اس تہذیبی ڈسکورس نے بحر حال کسی طرح مذہبی کرداریت کی نفی نہیں کی ہے،حلانکہ جس مذہب کے خلاف یہ باتیں کی گیئں ،اس مذہب اور اسلام کی اساس و بنیاد  باہم بھت کم مماثلت علمی رکھتی نظر آتی ہیں۔

 معلوم پڑتا ہے کہ فرد و ثقافت  ایک  خاص انفرادیت کو پسند کرتے ہیں، ویسے ہی یورپی،مغربی ڈسکورس بھی ایک خاص جدید متبادل انسانیت پرست عقلی ثقافت میں وسعت پیدا کرکے کل دنیا کو اس کی آفاقیت کا قایل کرواکے اسکا پیروکار بنانا چاہتا ہے،لہذا انھونے بھی جو متبادل  نمونہ و معیار قایم کیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا عورت مارچ جیسی فکر والیاں کیا  اسی تہذیب کی آفاقیت میں اپنی خودی کو فنا کرکے اس بھاڑے کی خودی میں ہی ڈوب کر بے خود ہونا عمدہ جانتی ہیں؟ تو جانیں اسکے لئے جلد اور فوری طریقہ یہی بھتر ہے کہ اس مطلوب تہذیب کے ارض مقدس  کی طرف ہجرت کرجائیں تاکہ وہاں انکو کوئی روک ٹوک  نا سکے عین اس حیدر آباد کی خاتون کی طرح جسکی پیرس ڈایری انگریزی میں آن لاین خوب ڈاونلوڈ ہوکر معروف ہوچکی ہے جس میں موصوفہ نے پیرس میں اپنے میاں اور اسکے مشترکہ جنسی معرکوں میں اسکی شریک بن کر جن جنسی معاشقوں کا حال کھل کر بیان کیا ہے اس کتاب سے تہذیبی غداری ،غیر تہذیب کو اپنا کر جنسی فواید کا حاصل کرنے حال جیسے اس نے بیان کیا مانو ایسے معلوم ہوگا جہ جیسے کوئی  بیوی بدل پورن فلم دیکھ رہا ہے۔

خیر اتنا تو بحث اشارہ فراہم کرچکی ہے کہ اپنی تہذیب و انفرادیت کی خاص علمی اہمیت ہوتی ہے دوسری تہذیب کے دلدادہ خود سے بیگانے ہوکر جسمانی و ذہنی خودکشیوں پر مجبور ہوجاتے ہیں نتیجتاً پھر وہ سشانت سنگھ راجپوت جیسی ذہنی بے قراری کا شکار ہوکر کم عمری میں ہی زندگی کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،غیر اقدار کی پیروی جہاں کچھ کو سکون و خوشی عطا کرتی ہے وہیں عصری اقدار میں پنہاں مادیت و ترقی کی اس سفری خطا  کا شکار ہوکر کچھ لوگ خود کو جب جدید عصری معیارِ تہذیب و تمدن کے مطابق قایم کردہ خود ساختہ معیار کی پیروی سے جب خود کو مجبور و قاصر  پاتے ہیں تو سمجھو ثقافتی شاک کا شکار ہوکر خود کو ہی فراموش کرنے لگتے ہیں،لہذا آج کی دنیا میں عشق و محبت کے لئے جان قربان کرنے کے قصص سے زیادہ قابل توجہ جاننثاری لوگ کاروبار،دشمنی،شھرت،امارت ،عہدے اور امتحانات میں اعلی اعداد کے حصول میں ظاہر کررہے ہیں،چناچہ دو تین سالوں سے گلگت بلتستان و سوات کے طلبہ و طالبات پسند کی شادیوں،امتحانوں میں مطلوبہ خواہش سے کم اعداد حاصل کرنے میں خودکشیوں کے لگاتار مظاہرے کر رہے ہیں،اسی طرح جامعات کی خواتین طالبات کی بابت یہ بڑی مشہور و محقق بات ہے کہ وہ امتحانات میں کامیابی کے لئے،یا اعلی پوزیشن کے حصول کے لئے اپنے عزت و وقار کا سودا کرنا کوئی بھاری شہ تصور نہیں کرتی ہیں۔۔

تہذیب،و ثقافت ہو یا مذہب یہ  ہم سب کو اقدار کی لڑی میں پرو کر رکھتے ہیں رشتوں ،ناطوں،تعلقات و روابط میں وسعت و اخلاقیت قایم کرتے ہیں  بلکہ ایک نطم و ضبط قایم کرتے ہیں جو کل وحدت کی بھلائی و حفظ کے لئے سازگار ماحول قایم کرنے میں ممد و مددگار ثابت ہوتے ہیں،یہ تعلقات عموماً دیرپا،خوشگوار،اور مطلب سےعاری ہونے کی زیادہ صلاحیتوں سے لیس ہوتے ہیں جبکہ بیگانی  تہذیب سے تعلق اپنی خودی،اور اپنی ثقافت و تہذیب سے دوری کے ساتھ ساتھ فرد کو اجماع سے بیگانہ کرکے نئے اجتماع کا دیوانہ بنا دیتا ہے۔

چناچہ عورت مارچ والے ہوں یا  پھر نسائی ڈسکورس کے مداح ہوں یہ سب قدامت پرستی ،بنیاد پرستی  کو رد کرکے کسی معیاری اقدار اور ان  سے متعلقہ علمیاتی اقدار کی بحث سے اپنا  روحی و فکری تعلق ٹوڑ کر   اس سے خارج کسی غیر خارجی تہذیب کے معیار و اقدار پر اپنے تشخص کی بنیاد کھڑی کرتے ہیںمگر ہوتا کچھ یوں ہے کہ  کچھ عشروں و صدیوں بعد انکے جواب دعوی کرنے والوں کی نگاہ میں وہ بھی کلاسیکل ،متروک ،آوٹ ڈیٹیڈ یا پھر بنیاد پرست ٹھرنے لگتے ہیں۔

ویسے بھی کچھ ہی نظریاتی اقدار اتنے محکم و مضبوط ثابت ہوتے ہیں جو صدیوں کی کشمکش میں مسلسل پیھم جدوجھد کرکے اپنی مقبولیت کا معیار و درجہ قایم رکھ پاتے ہیں،چناچہ جدید ریاست،بین الاقوامی معاشرہ،سامراجیت،جدیدیت و مغربیت کی استعماریت کے سیاسی ،معاشی و نظریاتی غلبہ کے باوجود اگر اسلامی ڈسکورس مغرب سے ہی اپنے حامی وناصر مریم جمیلہ جیسوں کی صورت میں پیدا کر رہا ہے تو اسکا تجزیہ کرنے کے لئے ہمیں طارق علی،طارق فتح ،مبارک علی یا ضیاالدین سردار کے تجزیوں سے زیادہ  جان اسپزیٹو ،برنارڈ لیوس ،کیرن آرمسٹرانگ،جیسوں کے تبصروں کو سمجھنے و پرکھنے کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے،کیونکہ ایک تو  یہ سب غیر مسلم  مگر استشراق کے ماہر فن مانے جاتے ہیں دوسرے اپنی رائے قایم کرنے میں  یہ اتنے کنفیوز نہیں ہیں جتنے   مغربی فکر و تہذیب کے دلدادہ اول الذکر  گروہ کے مسلم ہیں  جو اپنے بنیادی ڈسکورس سے غداری کے مرتکب رہے اور ،اپنے اسلاف کی تہذیب سے اپنے من چاہے اصولوں کے تحت روابط قایم رکھنے کے لئے کام کر رہے ہیں جن میں سے سلمان رشدی ہو یا طارق علی  ہوں انکی  کم ازکم یہ یہ بات قابل مشرق و مغرب کے باہمی ڈسکورس کے تناظر میں عین درست حالت کی حامل نہیں ہے کہ مغرب نے مشرق کو سمجھنا چھوڑدیا ہے،یا مشرق نے مغرب کو پرکھنا چھوڑدیا ہے،اور یہ کہا جانے لگے کہ ایڈورڈ سعید کا ثقافتی و استشراقی نمونہ علمی  طور پر متروک و فنا ہوچکے ہیں درحقیقت  کم از کم پاکستان کے تناظر میں تو یہ مسلہ اب زیادہ آب و تاب سے سمجھا جانے لگا ہے  جس کا بین ثبوت ان مباحث کی ترجمہ ہوتی  کتب اور  وہ طبع زاد کتب ہیں ،جنکا مطالبہ آن لاین یا واٹس ایپ گروپس پر خریدار اپنے کتب فروش سے روز کرتے نظر آتے ہیں۔

انھی مباحث کے ذیل ہمارے آج کے جنوبی ایشیا کے لوگ اپنے اقدار و تشخص کی علمیاتی جنگ و جدل کو پروان چڑھاتے نظر آتے ہیں،لہذا نسائیت کا مشرقی ڈسکورس میڈیا پر جتنا پر قوی،مشہور و پھیلا ہوا نظر آتا ہے،وہ اپنی قوت کے اظہار کے دعووں کے باوجود آٹے میں نمک تعداد سے بھی کم خود تقویت دیتے نظر آتے ہیں،بلکل عین ایسا ماجرا ہمیں عورت مارچ میں عددی اظہار کی سیاست میں بھی  نظر آتا ہے۔

 اگر بغور دیکھا جائے تو واضح  ہوجاگئیا کہ ہم مذکورہ بالا بحث کے عدد تین  تک کل دس اعتراضات  کا کچھ نا کچھ رد کر چکے ہیں،جیسا کہ یہ  اعتراض بھی وہاں بمع رد  بیان کردیا گیا ہے کہ ظلم کی چکی میں صرف عورت آذاد شکل میں یا کنیز و باندی کی شکل میں نہیں پستی ہے بلکہ اس چکی میں مرد بطور آزاد تشخص کے اور بطور غلام اسکا  ہمیشہ ہمسفرو سھیم رہا ہے،عمار بن یاسرؓ ،ہوں یا انکے والد یاسر ؓ ہوں یا والدہ سمعیہؓ تینوں قطع نظر جنس و عمر ظلم کو جھلتے رہے تھے،بلال حبشیؓ ہوں یا سلمان فارسیؓ ان سب ہی نے گورے و کالے کے اختلاف کے باوجود ظلم کو برداشت کیا تھا،وہیں دوسری طرف آزاد لوگوں میں جو اسلام و دین کے لئے اذیت رسانی ابوبکرؓ نے نبی اکرمؐ کے ساتھ برداشت کی تھی  ویسی علیؓ ،عباسؓ یاابو طالب نے برداشت نہیں کی تھی ،یہ سب تقدیر ،و تاریخ کے کھیل و مقام ہیں جن سے  باہر نکلنا کوئی اتنا آسان نہیں  کام نہیں ہے  کہ جتنی آسانی سے  معترضین نے اعتراض  وارد کردیا  ہےاور جتنی آسانی سے ہم نے جواب دے دیا ہے،یہ  دراصل حقایق کے محاکمہ کا معاملہ ہے اسی طرح جنابہ خدتیجہؓ بھی زمانہ قدیم از اسلام کی باوقار،ثابت قدم اسلام لانے والی اولین خاتون تھیں ،انھونے کتنےہی  غلاموں پر رحم کیا تھا  ،کتنوں کو زید بن حارثہؓ کی طرح نبی اکرمؓ پر وار دیا تھا،جبھی تقدیر میں ہر فرد اپنے مقررہ مقام و رتبہ سے جبتک تبدیلی کا وقت و مقام لکھا نا گیا ہو آگے پیچھے ہو نہیں سکتا ہے جیسا کہ عایشہؓ نبی اکرم ؐ کی محبوبہ ہوتے ہوئے بھی ان پر رشک فرمایا کرتی تھی اور یہ بیان کیا کرتی تھیں کہ نبی اکرمٔ کے دل میں انکا کیا مقام تھا کتنا آپؐ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور کیسے انکی سہیلیوں کو دینے دلانے میں یاد رکھا کرتے تھے ختیجہؓ تمام نسا کے لئے ایک قربانی و ایثار کا عملی نمونہ ہے،شرف،دین،کردار،قربانی،اور کسب سب آپ میں مجتمع ہوگیا تھا۔

نبی اکرم ؐ کی یہ زوجہ محترمہ بھی ایک خاتون ہی  تھیں وہ بھی  زمانہ قدیم میں سے  مکی دور کی خاتون  تھیں مگر کیا انکا اس دور میں بھی ایک معاشی و خاندانی تشخص ایک عورت ہونے کے باوجود تسلیم نہیں کیا جاتا تھا؟، اسی طرح نبی اکرم ٔ کی رضاعی والدہ کا معاملہ دیکھو کہ کیا یہ عام بات تھی کہ ایک اعلی خاندان کی عورت کا بچہ دور رضاعت میں ایک  بدو و غریب دودھ پلانے والی کی چھاتی سے لگا دودھ پیتا تھا اور اس رضاعی رشتہ کا پاس  وخیال کا یہ حال تھا کہ   ایسی رضاعی وآلدآوں کا عزت و احترام عرب کا ہر ایک  عام و خاص کیا کرتا تھا،نبی اکرمؐ کی مثال کیوں اس ضمن میں فراموش کردی جاتی ہے۔

اب ذراعایشہؓ کو مدنی دور کے تناظر میں دیکھیں یا وفات نبیؐ کے بعد تک دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ لوگ نبی اکرمؐ کے قول ،فعل اور معمول زندگی پر انکو اتھاڑتی مانتے تھے،صحابہ کرام بڑے ہوں یا  چھوٹےسب ہی  ان سے رجوع  کیا کرتے تھے،انکا رتبہ ایسا  تھا کہ ہر ایک انکی بات کو ترجیح دیتا تھا،انکے مخالفین بھی دل پر ہاتھ رکھ کی کر اس بات کو سچا جان کر انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ جمل  کی جنگ میں علیؓ اگر خلیفہ وقت  تھے اور اسکے دعوے دار تھے،یا پھر طلحہ ؓ یا زبیرؓ جو عشرہ مبشرہ سے تھے اور جرات،شجاعت اور بھادری کے پھاڑ  جانے جاتے تھے، انکا مقام لوگوں سے اوجھل ہوگیا ورنا مستند آثار سے ثابت ہے کہ ان دونوں کا صحابہ میں یہ رتبہ و مقام تھا کہ عثمانؓ کے بعد لوگ علیؓ کے ساتھ ساتھ  ان دونوں کو بھی  خلافت کا اہل امیدوار تسلیم کیا کرتے تھے۔

اہل بصرہ نے جنکے پلڑے میں اپنے جوان ڈال دیے تھے یہ دونوں خود  ایک خاتون(عایشہؓ) جو ان سے کافی  کم عمر تھیں کے مقابل خود کو  بطور رہنما کم وقعت محسوس کررہے تھے،وہ خارجی جنھونے علیؓ کی بعیت میں اہم کردار ادا کیا  تھا اور جنھونے عثمانؓ کو شھید کیا  تھا وہ بھی شھادت سے قبل علیؓ کے ساتھ طلحہؓ و زبیر ؓ کو خلافت کا اہل اور مضبوط امیدوار جانتے تھے،چناچہ مصر،کوفہ و بصرہ ان تینوں اصھاب رسولؐ کی حمایت میں منقسم تھے ،مگر جب طلحہ و زبیرؓ نے انکار خلافت کردیا تو علیؓ  ہی واحد امیداوار مانے گئے تھے واضح رہےکہ معاویہؓ  اور علیؓ کے باہمی معرکہ اجتھادی نوعیت کے تھے ورنا امیر معاویہؓ نے ان میں خود کو نا خلیفہ قرار دیا تھا اور نا اس کے لئے کوئی بیعت لی تھی ،اس تمام شھرت کے باوجود جب طلحہؓ و زبیرؓ کو قصاص عثمانؓ کے لئے لوگوں کو جمع کونے کی ضرورت محسوس ہوئی اور جسکو ان سب نے قاید  اور  مرکزی قوت کے طور پر اپنا  بڑا مانا وہ عایشہؓ تھیں،کون عایشہؓ جنھونے عدل و انصاف ے فاطمہؓ کی بابت صحیح آثار من وعن امت تک منتقل کردیے ہیںاور اس ضمن میں کوئی ڈنڈٰی نہیں ماری ہے، انکی صداقت و ایمانداری کا یہ حال ہے کہ علیؓ کے فضایل میں روایتیں بیان کردیں،حلانکہ روافض اور بد عقیدہ انکے انکے والد محترم کی طرح سخت مخالف ہیں انکی فقاہت و قابلیت ایسی معیاری جانی جاتی کہ  ابن عمرؓ،ابن عباسؓ،اور ابو ہریرہؓ جیسے حدیث کے بڑے جاننے و نقل کرنے والوں کے فتاووں کی اصلاح قران وحدیث سے فرما دیا کرتی تھیں،کون عایشہؓ جنکی شان میں ہلکی سی گستاخی پر لوگوں نے جنید جمشید کی ایسی تیسی کردی تھی،انھی  عایشہؓ کا حال دیکھو کیا عشق تھا لوگوں کو ان سے کہ نماز پڑھنے کے دوران طلحہؓ و زبیر ؓشھید ہوچکے ہیں،سامنے حیدر کرار علیؓ  مرتضی کھڑے ہیں،محمد بن حنفیہؒ حسنؓ و حسینؓ  مقابل موجود ہیں مگر بلا سپہ سالار ہونے کے باوجود عایشہؓ کے امھات المومنین ہونے کے سبب،نبی اکرمؓ کی محبوب زوجہ ہونے کے سبب،ابو بکرؓ کی دختر ہونے کے سبب ہاری ہوئی ،بلا سپہ سلار جنگ،خارجیوں کی بھڑکائی ہوئی جنگ جاری و ساری تھی ، لشکر علوی میں مالک بن  اشتر جیسے شیطان نما برتمیز فرد جو  خوارج کے ساتھ ساتھ انکی جان و عزت کے پیچھے ہاتھ دھو کر  پڑے ہوئے تھے کہ سامنے ان عایشہؓ  ایک خاتون  ہوکر ڈٹی ہوئی تھیں  کی حفاظت و تحفظ کے لئے عاشقان رسول  کانکے اونٹ کے سامنے سینہ سپر ہوکر جانیں نثار کررہے تھے،کٹ کٹ کر مر رہے تھے،یہ تو علیؓ کی عقل کو سلام  کہ پہچان گئے کہ انکا ہودج  اگر یوہیں  استقامت کے ساتھ کھڑا رہا تو سامنے  کوئی  بھی زندہ باقی  نہیں بچے گا انھونے اس اونٹ کو زخمی کرواکر بٹھادیا،ورنا بنا رہنما کے  اس لشکر کو ختم کرنے کے لئے کوفہ،عراق کے خوارج ایڑھی چوٹی کا زور لگا چکے تھے علیؓ نے حکمت و تدبر سے کام لیا  تو یہ  جنگ رکی،اسی طرح دنیا کے کتنے  ہی قبایلوں سے  سے پوچھو کہ وہ کیسے اپنی  عورتوں کی عزت و وقار کے لیے  غیر مختتم جنگیں لڑ لڑ کر ختم ہوجاتے ہیں یہی عورت جب دوپٹہ کسی مرد کے قدموں پر رکھتی ہے توغیرت کے مارے بڑے بڑے دشمن جان بخشی کر نے پر خود کو مجبور پاتے ہیں لہذا اکثر،تصاویر جو ظلم دکھارہی ہوتی ہیں عموماً یک رخی حقیقت عیاں کر رہی ہوتی ہیں  لہذا تصویر کا یہ  دوسرا رخ بھی خدایا دیکھا کریں؟ ۔

 اس فکر سے باہر نکلو کہ اسلام غلامی کو رواج دینے والا ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام غلامی کو قایم کرنے والا نہیں بلکہ اسکی اصلاح کرکے بتدریج کمزور و ڈھیلا کرنے والا دین ہے،اسلام کا نظامِ کفارہ غلامی کے بندھنوں کی قید سے وجود انسانی کو باوقار طریقے سے آزاد کرنے کا نظام تشکیل دیتا ہے۔

غلامی جتنی ابتر ،بیھودہ طریقے سے زمانہ قدیم بلخصوص ،روم،یونان،مصر،شام،و یورپ میں موجود تھی اسکا اندازہ  کوئی تاریخ سے ناواقف  جدید الخیال مسلم  فرد وغلام لگا ہی نہیں سکتا ہے،انکی تصویر کشی کے ضمن میں ہالی ووڈ و یورپ نے کتنی ہی فلمیں ممد و معاون ثابت ہوسکتی  ہیں مشہور زمانہ ڈرامہ سیریلز،اسپارٹکس ،وائی کنگ اور دی لاسٹ کنگڈم دیکھ لیں شاید یہ فکشن ہی آپکی ماڈرن لایف کی کچھ آنکھیں کھلوادے ۔

زندگی کو اور تاریخ کو صرف جنسی نقطہ نظر سے یا جنسی پیراڈیم میں دیکھنا کوئی معقولی حرکت نہیں ہے، یکونکہ برابری کی مطلق حقیقت سرے سے  کوئی  عقل و تاریخ سے ثابت شدہ شہ ہی  نہیں ہے ،جس طرح عدالت میں انصاف حقدار کو اسکا  جایز حق عطا کرنا صحیح سمجھا جاتا ہے ناکہ برابری کی بنیاد پر قاتل و مقتول،قابض و متاثرہ فرد کو خوش کرنے کو انصاف کہا جاتا ہے،جس طرح کسی مرد کی بیوی اور اسکی رکھیل برابر نہیں ہوتیں ہیں  اور نا ہی کوئی منصف مزاج عورت انصاف کے پیرائے سے متاثر ہوکر کبھی یہ مان سکتی ہے کہ اسکے خاوند سے تعلق قایم کرتی کوئی طوایف یا اسکی گرل فرینڈ اسی تشخص ،احترام اور حق کی مستحق قرار پائے جیسی وہ جانی جاتی ہے،عین  جس طرح ایک پانچ سو روپے چارج کرنے والی طوایف اور لاکھ روپے لینے والی طوایف یکساں جنس اور یکساں کاروبار میں  شراکت کے باوجود اپنے  معیار  کی رو سے خود کو ایک دوسرے کا مساوی اور  برابر ماننا  بطور انصاف تسلیم نہیں کرسکتی ہیں  ویسے ہی جنس مرد اور جنس عورت وظایف ،سیادت،حکومت،اہلیت،قوت، دانش،حرب و فن میں برابر نہیں ہوسکتے ہیں،بلکہ ایک ہی جنس کے مرد اپنی مردانہ جنسی دایرہ کار میں یکساں مقام،صلاحیتوں ،رتبہ میں ایک دوسرے کے برابر  نہیں ہوتے ہیں  اسی طرح مذہبی بنیادوں پر کوئی بھی مسلمان عیسائی یا یہودی اشتراک جنس و نسل کے باوجود کبھی محمدؐ،عیسیؑ اور موسیؐ کے برابر مرتبہ،سیادت،مذہبی مقام ،رتبہ یا کسی بھی پیرائے میں برابر ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔

جدید فلسفہ  کو بھی اگر من حیث المجموع حقیقی تناظر میں دیکھا یا  پرکھا جائے ،نالایق و قابل ،اہل و نااہل کو یکساں نہیں جانتے ہیں حد یہ کہ کانٹ جیسا فلسفی سچ و جھوٹ کی اخلاقیات کو یکساں تسلیم  نہیں کرتا  ہے وہ  اس جھوٹ کو  بھی نیکی ماننے سے علمیاتی تناظر میں گریزاں نظر آتا ہے جو کسی کے بھلے کے لئے بولا جائے،اسی طرح انصاف جدید نظیامتی فلسفہ میں یہ ہے کہ سب کو مواقع کے حصول کی جدو جھد میں برابر جانا جائے،کسی  کو ملازمت یا کسی عہدے کے لئے مقابلے کرنے  کےلئے می برابر مواقع حاصل ہوں  ناکہ چن لئے جانے کے بعد غیر رسمی ملازم  اور رسمی ملازم  دونوں ہی  یکساں  طور پر دیکھے یا پرکھے جائیں،جان رالز نے بھی اپنے منصفانہ طریقہ کار کے نظریی میں کافی حد تک  ایسا ہی  تسلیم کیا ہے بس اس بات پر زیادہ توجہ دی ہے کہ متاثرہ،محکوم،افراد کو بھی اس طرح اعلی مواقع دئے جائیں جیسے مستفید افراد کو حاصل ہیں۔

ایک مثال دیکھیں بے نظیر ایک سیاسی جماعت کی سربراہ تھی جو اپنی حیات میں دو دفعہ وزیر اعظم بنیں،انکی جماعت کے مردوں کو جو انکے جاں نثار تھے کو کچھ دیر کے لئے فراموش کردیں کیا اسی جماعت کی ایک وارڈ کی کارکن سے لیکر ایک خاتون  رکن اسمبلی  تک کوئی بھی  کیا خود کو انکے برابرتسلیم کرتی تھی، جبکہ کیا وہ خود برابری برابری،انصاف یا حق کی بات کرتی تھیں مگر وہ اور انکا خاندان جو  نسلی پس منظر پر اپنی  جماعت  اور  پاکستانی سلطنت پر قابض رہا  کیا ان لوگوں نے خود کبھی پارٹی الیکشن کا چلن ڈالا؟ پاکستان و ایشیا کی  ہر دوسری،تیسری ،پارٹی نے نسل پرستانہ ،خاندانی پس منظر پر ہی اپنی  سیاست ،سیاددت  اور ریاست کھڑی کی ہے، لہذا آج کل  انصاف  ہو یا برابری  بس نعروں،فلسفیانہ موشگافیوں  اور دل بھلانے کا معاملہ بن کر رہ گیا ہے، بلکہ سچ یہ  ہے کہ یہ ایک نعرہ جاتی سیاسی پراڈکٹ بنکر رہ گیا ہے،یہی چلن بعد ازاں مسلم لیگ ،اے۔این ۔پی نما جماعتوں نے بھی  اپنایا ہے۔

معذرت کے ساتھ ہم سب ہی لوگ عروج اسلام سے زوال تک آج تک نسل و خون کے احترام پر جان لٹاتے ، اور انصاف کو  برباد کرتے رہے ہیں،میں زیادہ بات نہیں کرونگا لوگ بحث  کو فرقہ وارانہ پس منظر سے آلودہ کرنے کے بھتان سے لبریز کردینگے،مگر سچ یہی ہے کہ بادشاہتیں رخصت ہوگئیں مگر سیاسی جماعتوں اور جمہوری کلچر نے نیی قسم کی سیاسی رہنمائی کرتی لاکھوں ،کروڑوں بادشاہتوں کو وفاق سے دیہی سطح تک قایم کرکے رکھ دیا ہے۔

لہذا جمہوری سرمایہ دارانہ ثقافت سے پروان شدہ فکری مباحث نے ایسی ایمانیات کو جنم دیا ہے جو فرد کو اول انسان کی خدائی کا نشہ چڑھواتی ہیں،پھر خدا و مذہب سے دور لے جاکر انسانوں کو مخصوص خاندانوں ،جماعتوں اور گروہوں کا غلام بنا دیتی ہیں،ہم کتنے ہی  بڑے عالم فاضلکیوں نا بن جائیں ،کتنا کچھ زندگی بھر پڑھ لیں ایک مقلد یہی کہتا ہے تمہارا انکا کیا مقابلہ،اس ثقافت نے ایسی ایمانیات کو پروان چڑھایا ہے کہ جو شخصیت پرستی کو درون خانہ تسلیم کروالیتی ہے،آپ جتنے ایماندار ہونگے اتنے ناکام ہونگے،یہ معاشرہ اتنا منصف مزاج ہے کہ سرکاری ملازمتوں سے سیاسی عہدوں تک اقربا پروری کو ہی درجہ قبولیت حاصل ہے،جو عورت ہو یا مرد سب کو یکساں طور پر متاثر کررہے ہیں اور  انکے تشخص و وقار کی تذلیل کررہے ہیں،ہماری انا خودی پرواز کیا کریگی جو حالات دیکھ کر رینگنا بھی چھوڑ چکی ہے،اور الٹا اس جہاں میں مساوات جنسی کی باتیں کی جارہی ہیں۔

جنسیات،نسائیات،یا جنسی مساوات کی مباحث جنگ عظیم اول سے قبل کچھ رخ بدلنا شروع کرچکے تھے جنگ عظیم دویم کے بعد جب سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت میں سرد جنگ کا آغاز ہوا تو دونوں کی  اس سرد جنگ نے آزادی کی حدود کے فلسفے کو نئی جدید توسیع شدہ جدت عطا کی،اتنا تو خیر مسلمہ نتیجہ خیز امر سامنے آیا کہ دونوں نے ہی کم از کم فیکٹری سے کھیت تک،اسکول سے آفس تک عورت کی آزادی کی حدود مرد کے مساوی لانے میں اتحاد و یکجہتی دکھائی تھی ۔

اس اجماع کا نتیجہ بعد ازاں  گھر سے اسکول تک اور وہاں سے کالجز و جامعات تک وسیع کر دکھایا،ہماری آج کل  کی دنیا کمیرہ فون کے سبب ایک  ورچوئیل چکلے خانے میں بدل چکی ہے،جو کبھی خود سے بھی چھپانے کی باتیں  ہوا کرتی تھیں وہ اب اکیلے یا  کسی کے ساتھ میں کمیرہ کے ہاتھوں نکل کر آن لاین ہوچکی ہیں ،آج ایک ایسی پورن صنعت قایم ہوچکی ہے جو قریباً دو کروڑ تک ویب سائیٹوں  تک وسعت پاچکی ہے ، جس میں ہر روز ان خود ساختہ ویڈیوز کا پھاڑ آن لاین جمع ہوتا رہتا ہے، آج ایک مکروہ الشکل مرد و عورت بھی جنسی نظارے سازی کی سرگرمی کو وسعت دینے میں اس بنیاد پر داخل  کاروبار ہوچکے ہیں کہ جسم و جنس ہوں تو انکو کوئی نا کوئی ضرور سراہ لیگا، ہمار اپڑوسی ملک بھارت اس صنعت و شوق میں مغرب کو کئی گنا پیچھے چھوڑ چکا ہے،سیکولر ترکی اس مھم و کاروبار میں ستر کی دھائی سے آگے تھا۔ہمارے قومی کارنامے بھی ڈھونڈھنے سے میسر آجاتے ہیں۔

اب ذرا آج کی اس جدید جنسی انارکی کی بحث سے جس سے نئی پود خوب واقف ہے سے پیچھا چھڑا کر ذرا ماضی میں  چلےجاتے ہیں کہ تاکہ دیکھ سکیں کہ ماضی میں کیسے مغرب کے لوگ اس جنسی انارکی،جنسی آزاد خیالی میں نسائی آزادی کی حدود میں کمی کے  سبب پریشان تھے، کسی معاشرے کے اسکول ،کالجز اور جامعات اس تجربہ میں بنیادی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں  اب آئیں ذرا  ذیل میں اسکا کچھ ہلکا پھلکا اندازہ قایم کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

 ہم دیکھتے ہیں کہ  ملک لبنان عرب آزاد خیالی میں مصر ی ٹکر کا حامل ملک رہا ہے اس ملک میں عیسائی،و یہودی بھی مسلمانوں کے ساتھ مناسب تعداد میں بستے نظر آتے ہیں حد یہ کہ وہاں یہ فارمولا طے ہوچکا تھا کہ ایک عیسائی اگر صدر ہوگا تو مسلمان وزیر اعظم ہوگا،یہاں فلسطین کی تحریک آزادی کے گڑھ ہونے سے قبل یعنی ساٹھ کی دھائی اور ستر کی ابتدا و وسط میں آزاد خیالی عروج پر تھی،یہاں کی عورت کا حسن مانی ہوئی حقیقت جانا جاتا ہے،لوگ کہتے ہیں  کہ وہاں کی عورت ایسی خوبصورت ہوتی ہے جیسے کوئی حور زمیں پر بستی ہوں،مغرب و امریکہ نے یہاں کی اہمیت کے تناظر میں یہاں اپنی جامعات و کالجز کے بیرون ملک کیمپسز قایم کئے ہوئے تھے ،اسی لبنان کی میوزک ویڈیوز آن لاین چیک کرلیں ہلکا سا ٹچ آپکے ہاتھ آجائیگا۔

خیر اسی لبنان کے ایک اخبار الاحد کو ماضی میں امریکی جامعات  میں پھیلی جنسی بے راہ روی پر تحقیق کا شوق چرایا تو اس نے اس معاملہ کی  بع از تحقیق تصویر کشی کچھ اس طرح کی کہ :

ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی جامعات  اور کالجوں کے طلبا و طالبات میں رسوا کن جنسی واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،اب تو معاملہ اس سطح پر آگیا ہے کہ امریکی جامعات میں طلبہ یہ نعرے بڑی آزاد روی سے مظاہروں و مطالبوں کی صورت پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں دوشیزائیں دو تاکہ ہم اس جنسی گھٹن سے نبرد آزما ہوکر سکون و فرحت پا سکیں۔

اس واقعہ کی بابت یونیورسٹی کے سربراہ کو ایک مراسلے (رپورٹ) میں یہ بیان رقمطراز کرنا پڑا کہ:

ہمارے اکثر طلبہ و طالبات نہایت خطرناک قسم کی جنسی بھوک کا شکار ہوچکے ہیں ،حقیقیت بھی یہی ہے کہ موجودہ دور کی ہماری آزاد زندگی کا طلبہ کے ان انحرافات و تشکیل میں اور نازیبا حرکات و سکنات میں بھت گہرا ہاتھ رہا ہے۔

مذید براں اخبار کا یہ تبصرہ قابل غور ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار ایسے بچے ریکارڈ سے نظر میں آئے ہیں جنھیں ایسی دوشیزاوں نے حرام کاری سے جنم دیا ہے جنکی خود کی عمر بیس برس سے زاید نہیں ہے اور یہ طالبات زیادہ تر کالجز و جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔

 

 اسی طرح ولایاتِ پرویفیڈنس کی پولیس رپورٹ آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہے جس کے مطابق:

 چھاسٹھ طلبا و طالبات نے گزشتہ ماہ مئی  کے آخری ہفتہ کی چھٹی آئی لینڈ میں گزاری جہاں سے یہ   بجائے اس کہ اپنی  جامع واپس آتے الٹا علاقہ کی جیل کی زینت بنتے کیونکہ انھیں نھایت مشکوک،نازیبا ہیت میں گرفتار کیا گیا تھا،حد یہ کہ منشیات جیسے ناجایز استعمال میں بھی یہ آگے آگے تھے۔

 ایک سوشل ورکر مارگریٹ اسمتھ کے ایک  تبصرہ نے اخبار میں جگہ بنائی کہ جس میں وہ فرماتی ہیں کہ:

آج کی طالبات کو ہر وقت اپنے جذبات و خواہشات کی فکر لگی رہتی ہے اور وہ ان وسایل کے درپے رہتی ہیں جو انکے جذبات کا ساتھ دے سکیں ،حد یہ کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ طابات امتحانات میں ناکام ہوگئیں اور انکی ناکامی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ اپنے اسباق  و مستقبل سے زیادہ جنس کے سلسلہ میں سوچتی رہتی ہیں ان میں سے مشکل سے دس فیصد لڑکیاں ہی ایسی ہونگی جو اپنی عزت و آبرو کو محفوظ رکھتی ہونگی۔[10]

 ماضی کےب اس جنسی  رجحان میں پہلے کے مقابل کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے  چناچہ اس بابت آن لاین ریسرچ کے دوران کئی فلمیں اور ڈرامے ان رجحانات کی بابت کچھ تاثر فراہم کرتی دیکھنے میں آئی ہیں :جیسے نیٹ فلکس سیریل سیکس ایجوکیشن،سیکس اینڈ سٹی ،دی بولڈ ایںڈ بیوٹی فل فلمیں دی پرفیوم،امریکن پائی وغیرہ۔

 

درحقیقت یورپ کی مغربیت کوئی نئی شہ نہیں تھی،چرچ نے عامتہ الناس پر جو غیر فطری جنسی پابندیاں عاید کی تھیں، جس نے انکی  نگاہ  میں نکاح کو ایک قید بنادیا تھا،اور اسکے عدم وقوع کی جیسی تعریف کی جاتی تھی اسکا اثر یہ ہوا کہ دورن خانہ دینی مدارس،کلیسا،مراقبہ خانے اور عبادت خانوں سے لیکر محلات تک،اور عوام تک جنسی کج روی عام تھی چونکہ طلاق پر کلیسا کی اجارہ داری تھی، لہذا کلیسا نے نکاح کو ایک شادی ایک وقت کے کلیہ  تک مقید کرکے رکھدیا  تھا لہذا،محرمات سے غیر محرمات تک جنسی آوارگی عام تھی،ہر جگہ وہی اصول تھا جو ہمارے ہاں عام ہے کہ طاقتور کو چھیڑو نہیں کمزور کو چھوڑو نہیں،جو ہاتھ چڑھ گیا پکڑ لو ورنا نظر انداز کردو۔اطالیہ  میں پوپ کا  بورجیا خاندان جس کے پوپ کے ناجایز طریقے سے پوپ بننے اور گھریلو جنسی معاملات کی آزادی کی گواہی تاریخ سے فکشن تک ملتی ہے کا کیسے انکار کرنا ممکن ہے،ڈیورانٹ سے سیزر بورجیا ڈرامہ سیریل تک میں اسی تاثر کی بازگشت سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔

خانقاہ[11] نامی ایک ناول(۱۷۹۶) یورپ میں ایک صدی  تک معیوب و ممنوع رہا جس میں خانقاہ میں ہونے والے جنسی معاملات کی تصویر کشی کی گئی تھی بلکہ رواں صدی تک کلیسا کے عہدیداروں کی جانب سے بچوں سے بد فعلی کے معاملات پر پوپ و کلیسا کو معافی مانگنی پڑی ہے،فرانس جہاں جنسی آوارگی کی کوئی حدودو قیود متعین نہیں تھیں اور آج بھی وہاں کی آزادی و جنسیت کی توسیع معروف امر جانی جاتی ہے، وہاں کے شاہی  دربار میں علما اور فلاسفہ تک میں کج روی عام تھی،لوئی چودہ (۱۶۳۸ تا۱۷۱۵)اور اسکے جانشینوں میں  جنسی آزادیوں کا یسا چلن عام تھا کہ اکثر ،کنواریوں کو چھوڑ کر شادی شدہ عورتوں سےجنسی تعلقات قایم کرتے رہتے تھے جس کو زیادہ  شوق ہو تاریخ پڑھے یا ورسائی ڈرامہ سیریل کےدو سیزن دیکھ لے،اسی فرانس کو جو جنسی ورثا منتقل ہوا اسکے سبب فرانس عروج و زوال کا وقفہ  وقفہ سے شکار ہوتا رہا،جرمنی نے اسکی آزاد روی ،داخلی کج روی و جنسی انتشار کا ایسا فایدہ اٹھایا کہ ۱۸۷۰ کی سیڈان جنگ میں فرانسیسی  بلکل پھس ثابت ہوئے اسی طرح مابعد ہم  دوسری جنگ عظیم میں دیکھتے ہیں کہ کیسے اپنی عمارتوں عورتوں،سڑکوں اور پر آسایش زندگی کے تحفظ کے نام پر تربیت یافتہ،ہتھیاروں سے لیس فرانسیسی دل ہارتے گئے ،پسپا ہوتے گئے اور بلاخر جرمن فوجیں وہاں آکر تخت نشین ہوگئیں۔

جنسی آزادی و آوارگی مرد و عورت کی جنسیت میں مشغولیت اور ان آزادیوں کی قیمت قومی تشخص کی بربادی و تباہ حالی کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے،عین یہی حال ماضی میں روس کا تھا جسکی تصویر کشی ٹاسٹائی نے وار ایند پیس میں کی ہے،آزادی کی ہمیشہ کچھ حدود ہوتی ہے ،کبھی بھی مطلق آزادی انسانی تمدن کے لئے شافی ثابت نہیں پائی ہے۔

جدید ٹیکنالوجیکل تمدن کے عروجی سرمائے ریاست امریکہ کی بابت محمد قطب فرماتے ہیں کہ:

جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اسکی پر فریب زندگی کا پردہ چاک کرنے کے لئے  خود امریکی حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار  کافی ہوتے ہیں،جن کے مطابق امریکہ کے ثانوی اسکولوں کی ۳۸ فیصد لڑکیاں حاملہ پائی گئی ہیں؛یونیورسٹی کے نچلے درجات کی طالبات میں  یہ تناسب نسبتاً بھت کم ہے،کیونکہ وہاں کی لڑکیاں انکی نسبت ذرا ہوشیار و تجربہ کار ہیں وہ مانع حمل  ادویات و تدابیر سے بخوبی واقف ہیں[12]۔

مشرق کی عورت جب مغرب کی عورت کو رول ماڈل بنا کر اسکے جتنے حقوق مانگتی ہے تو کیا ،مغربی عورت کی اس حیات کے پس پیش محرکات،اسکی مجبوریوں،تہذیب،تمدن،ثقافت،اقدار  کی تفریق کو مد نظر رکھتی ہے یا بنیاد اڑا کر صرف چھت و کمروں کو مطالبہ کرنے لگتی ہے،اس پر دروازہ ٹھوکتی ہے یا دروازہ ہر ایک لئے کھولے رکھتی ہے۔

اہم سوال تو یہ ہے کہ مغرب کی عورت جیسی بنکر اسکو حاصل کیا ہوگا اور اسی مغرب کی عورت اسی تمدن وتہذیب کو چھوڑ کر مشرق کے عام فرد کی رفیقہ حیات بننے کے لئے کیوں آمادہ ہوجاتی ہے؟

ہمیں ساتھ ساتھ یہ  بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نسائی بحثوں اور برابری کے مسلہ کے نتایج کیا نکلےہیں تو سنیں ژی ژیک ایک بد تمیز منھ پھٹ قسم  کا مغربی مفکر جانا جاتا ہے اس نے ایک جگہ ایک ایسی بات لکھی ہے جو کہنے کو مغربی جنسی نفسیات و آزادی کی آئینہ دار ہے  مگر جس سے صاحب نظر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کہیں موصوف اپنے گھر کا قصہ دوسرے کے سر تو منڈھ نہیں رہے ہیں،وہ کہتا ہے کہ:

حال کا قصہ ہے ایک صاحب حسب معمول کام کے لئے گھر سے نکلے،کسی کام سے جلد واپس آنا پڑا تو دیکھا ایک مرد گھر میں موجود ہے ،بیوی کی حالت بھی عجیب عجلتی قسم کی دکھتی  تھی قبل اس کے وہ پوچھتا یہ کون مرد ہے اور گھر میں میرے پیچھے کیا کررہا ہے اسکی بیوی بولی کہ تم بے وقت کیوں گھر آگئے ہو  اور میری پرائیوسی کیوں  متاثر کررہے ہو؟ْ

 

کون نہیں جانتا کہ گزشتہ سو ڈیڑھ سو سالوں یورپ و امریکہ میں عورتوں کو برابری کے نام پر زیادہ سے زیادہ روزگار ،عہدوں اور دیگر مواقعوں کو مردوں کے مقابل نا صرف بڑھانے کی حکمت عملی جاری و ساری ہے  بلکہ کئی ملازمتیں مردوں پر صاف بند کردی گئیں ہیں،دوسری اور تیسری دنیا کو بھی عالمی معاہدوں ،مطالعاتی دوروں،تعلیم و تعلم اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے اسی روش کو اختیار کرنے پر آمادہ کیا جارہا ہے،مگر اسکے باوجود انکا مسلسل سو سال سے یہی کہنا ہے عورت و مرد میں اتنی زیادہ تفریق  موجود ہے اور انکو مطلوب برابری کا عدد و تناسب تاحال حاصل نہیں ہو پایا ہے ،ان امور پر ہم مغرب کے کچھ ماہرانہ تاثرات اہل مشرق کے سامنے گوش گزارنا پسند کرینگے۔

سیلویا ہیلٹ[13] برطانیہ کی ایک جنسی امور کی ماہر ہے خصوصا مرد و زن کے مباحث اسکی دلچسپی و تحقیق کا خاص محور ہیں وہ کہتی ہے کہ:

 

مجھے اس امر پر انتھا کا افسوس ہے کہ جاب مارکیٹ میں مرد و زن کی تفریق کا خواب ایک خوفناک خوب میں بدل چکا ہے۔

 

 

پھر کہتی ہیں کہ:

اس صدی کا ایک خاص جذباتی نعرہ یہ رہا ہے کہ مرد و زن میں  کوئی فرق نہیں ہے،جبکہ ابھی ہمارے پاس جو اعداد و شمار ہیں وہ اس امر کے غماز ہیں کہ آج پہلے کے مقابلے مین کئی گنا خواتین گھر سے باہر کام کررہی ہیں جبکہ بھت سے عورتیں اونچے عہدوں تک پر براجمان ہوچکی ہیں،لیکن اس تمام ترقی یافتہ تبدیلی کے نعروں کے باوجود یہ عورتیں اپنی ماووں کے مقابل کم خوشحال نظر آتی ہیں۔[14]

این مویر[15] اپنے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ:

جانے کہیں ایسی کونسی غلطی ہوگئی ہے کہ (مغربی) عورت کی آزادی  راہ میں  رکاوٹ ڈال دی ہے آخر کیا وجہ ہے کہ مساوی تعلیمی مواقع ملنے کے باوجود،مردوں و عورتوں کے یکساں تعلیمی نتایج کے باوجود جاب مارکیٹ میں دونوں جنسوں کے کامیابی کے مقابلے میں نمایاں تفریق ملتی ہے[16]۔

مشرق کی عورت مغرب کی عورت کی ظرح بننا اور اسکے جیسے حقوق مانگتی ہے حلانکہ دونوں کے فکر،تہذیب،ضروریات و مجبوریوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے،مشرق کی عورت سے مرد یہ نہیں کہتا کہ اج کما خود بھی کھا ہمیں بھی کھلا چند نالایق بے غیرتوں سے ہٹ کر مشرق کا مرد اپنے پورے خاندان اور بیوی بچوں کو حسب اسطاعت روٹی ،کپڑا اور مکان دینے کے لئے کولہو کا بیل بن جاتا ہے جبکہ مغربی عورت کو اپنی چھت،ذمین،روزگار و عزت سب کما کر حاصل کرنے ہوتے  ہیں۔

 وہاں جو خوش نصیب اولاد رکھتے ہیں ایک عمر بعد انکی اولاد  بھی گھر سے نکل کمانے میں مشغول ہوجاتی ہے ،خاندان و ماں باب ان سے دور ہوجاتے ہیں،سالوں ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھ پاتے  ہیں،ماں کہیں کسی اور بوائے فرینڈ کے ساتھ ہوتی ہے ،باپ کہیں اور اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ہوتا ہے،اکثر و بیشتر بچوں کی کم عمری میں ماں باپ الگ ہوجاتے ہیں ،اولاد رل جاتی ہے اور عموماً ماں یا باپ کی موت تک انھیں  دیکھ نہیں پاتے ہیں،مشرق میں اسکے مقابل زمانہ قدیم سے ایک مضبوط اشترک ذمہ داری پر استوار رشتوں ناطوں کا حسین تعلق صدیون سے موجود رہا ہےجسے عورت مارچ کے چوہدی تباہ و برباد کرنے کے درپے ہوگئے ہیں۔

 

 

 

امریکی ماہر بشریات  پروفیسر لائیونیل ٹایگر کا کہنا ہے کہ:

ہمارے معاشرے بنیادی طور پر مردوں کے موافق آتے ہیں،کیونکہ(گھر سے باہر)معاشرے میں کامیابی کے لئے ہماری عورت کو اپنی نسائیت کی قربانی دینی پڑتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مساوات ِ مرد و زن کے نتیجے میں سب سے زیادہ نا انصافی عورتوں کے ساتھ ہی ہوتی  نظر آتی ہے ،کیونکہ کامیابی کے لئے عورت کو اپنا آپ یعنی اپنی خودی کی قربانی دینی پڑتی ہے جب ان سے مردوں کا مقابلہ کرنے کا کہا جاتا ہے جسکا  نتیجہ عورتوں کی مسلسل محرومی اور حالیہ بڑھتی ہوئی نفرت و بے چینی کی صورت میں برامد ہوتا ہے[17]۔

 

تحریک نسواں کی حمایت کرنے والے مردوں کو جنسی اختلاف و تفریق کی بحث سے زیادہ  زنانہ جنس سے زیادہ عملی  مطلب ہوتا ہے،ہوسکتا ہے کہ کچھ کم علم یا غبی الذہن جدید الخیال مرد اسکی کچھ جذباتی یا آزاد روی کی ذاتی فطرت و میلان کے سبب اسکی حمایت کررہے ہوں مگر درون خانہ حقیقت یہ ہے کہ مرد و عورت کی برابری کے فلسفے کا فایدہ عورت کی جگہ مرد کے فایدے کی صورت میں زیادہ نکلتا ہے ،جس کی وجہ سے کچھ مرد  حضرات  اپنی اس سیاست سے بڑی تعداد میں ایسے مردوں کو بھی روزگار سے  محروم کردیتے ہیں جو کسی موقع ،مقام،عہدے یا رعایت کے زیادہ حقدار ہوتے ہیں،مگر سرمایہ دار کو چونکہ  عورت کو ذینہ بنا کر دولت میں اضافے کا شوق ہوتا ہے ۔

جو،صارفانہ سیاست کی تشفی کا بھی بخوبی سامان  پیدا کرتا ہے ساتھ میں کام کرنے والے مردوں اور خود سرمایہ کار کے لئے بھی  حسین ماحول اور مواقع پیدا کرتے ہیں ساتھ ساتھ ایک کمزور اور کم قیمت محنت کونے والی مخلوق بھی دستیاب کرلی جاتی ہے،اگر یہ کہا جائے کہ میری سوچ و فکر چھوٹی ہے جیسا کہ اس طرح کے لوگوں کو عامر لیاقت حسین سے حسن نثار تک یا وقار ذکا جیسے جدید ماڈرن میڈیا پرسنز  ان ناموں و تاثروں سے نسبت دیتے ملتے ہیں مگر وہ شاید یہ بات فراموش کرجاتے ہیں کہ اس بات کو اہل یورپ کے جنسی مباحث (جینڈر اسٹڈیز) کے محققین بھی ڈھکے چھپے انداز میں مانتے ہیں،جیسا کہ متعلقہ حوالے اس امر کی شھادت مذکورہ الذکر سطور میں پیش کردی گیئں ہیں، حلانکہ اہل مشرق خود اپنے مقامی لوگوں کے مطابق زیادہ جنسی حبس زدہ ماحول کے مالک ہوتے ہیں ایسوں کو ٹھرکی کے نام سے عامیانہ زبان میں یاد کیا جاتا ہے۔

ستر کی دھائی میں جنسی مباحث و تنقید کی ایک کتاب جو کافی متنازعہ بھی تھی اس موضوع کے لوگوں میں زیر بحث رہی تھی  جسکا نام :زنانہ ہیجڑا[18] تھا۔ایک جرمن آزاد طبع حقوق نسواں کی علمبردار خاتون جرمین گرئیر[19] جنکا جرمنی سے تعلق تھا نے اس کے تشنہ طلب امور کو مذید وسعت عطا کی اور تیس سال مباحث کی تبدیلی کے بعد نئے جدید مباحث سے اسکی تکمیل سرانجام دی اسکا نام مکمل عورت[20] تھا اس میں جرمین نے ان امور اور وجوہات پر روشنی ڈالی ہے جو عورت کی ترقی ،برابری اور رفعت کے آگے دیوار بنے کھڑے ملتے ہیں موصوفہ ایک جگہ اعتراف کرتی ہیں کہ:جنسی آزادی مرد کے حق میں ہی مفید ثابت ہورہی ہے۔ جیسا کہ وہ کہتی ہے کہ:

Sexual Liberation Harms Women more Then men:women Continue to Experience the momentous Consequences Of Pregnancy ,While the men body is un effected.[21]

جنسی آزادی کے ضمن میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اسکا نقصان مرد کے برخلاف عورت کے نقصان کی صورت میں زیادہ نکلتا ہے،کیونکہ چونکہ وہ نتیجتاً حاملہ ہوجاتی ہے اور مرد کی صحت پر اسکا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

اسے اس بحث کے اس پہلو پر بھی تشویش  لاحق ہے کہ مرد چاہے شادی کرے یا جنسی بوائے فرینڈ بنے وہ بعد میں طلاق یا تعلق ٹوڑ کر آّگے بڑھ جاتا ہے جبکہ عورت کو ماں کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے نتیجتاً اس تہذیب جدید کو معاشرتی تناظر میں سنگیں بحران کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

 

جیسے کہ جرمین ہمیں باور کراتی ہے کہ:

۱۹۷۱ میں ہر بارہ میں سے ایک خاندان تنھا والدین پر مشتمل تھا ، یہ تعداد مابعد ۱۹۸۸ میں سات میں ایک اور ۱۹۹۲ میں پانچ میں ایک تک جا پہنچی ہے۔

 

وہ مستقبل بینی کرتے ہوئے کہتی ہے کہ:

 

۲۰۲۰ تک ایسا معلوم پڑتا ہے کہ برطانیہ کے ایک تہائی گھر (۳۳ فیصد) صرف ایک فرد پر مشتمل ہوا کرینگے جن میں بڑی تعداد عورتوں پر مشتمل ہوگی۔

مغربی محققین کو اپنے فلسفہ زندگی سے آنے والی تبدیلیوں اور طوفانوں کا بخوبی اندازہ ہے اور اسکی تباہ کاریوں میں ایسا جنسی ماحول پیدا ہونا شامل ہے جو خود اپنے ماننے والوں کو ڈسنے لگتا ہے،یورپ و امریکہ میں جنسی جبر کی شرح تباہ کن حد تک تیز  چلی جارہی ہے کئی جگہوں پر یہ پچاس فیصد تک جا پہنچتی ہے ،اور ان مواقع پر وہ عورت جو جبر کا شکار ہوتی ہے اور وہ  جو اس پرجبر کرتا ہے دونوں ایک دوسرے سے نا صرف واقف ہوتے ہیں بلکہ ان میں ماضی میں کافی گھرے مراسم بھی پائے جاتے ہیں ،نا سننا اس معاشرے میں قتل تک نتیجہ ظاہر کردیتا ہے،ویسے تو عورت کو اپنی مرضی شادی کرنے میں استعمال کرنے کا جایز حق حاصل ہے ،مگر جب وہ یہاں تعلقات کے ضمن میں اپنی مرضی سے کسی کو مسترد کرتی ہے تو وہ نفسیاتی فرد اس نا  صرف اس کو اپنی توہین جان کر اس پر حملہ آور ہوجاتا ہے، بلکہ انکے مثل اسی طرح کبھی کبھار عورتین بھی مرد کی آبرو ریزی کرتی پائی جاتی ہیں نئے سے نئے جنسی انداز ومواقع پیدا کرنا عام  بات جانی  جاتی ہے۔

ہالینڈ و جرمنی کے ساتھ یورپ میں ایسے ساحل موجود ہیں جہاں کامل برہنگی و جنسی اختلاط کی کھلی اجازت ہوتی  ہے اور اسکی ویڈیوز آن لاین موجود ہے، اس طرح کے ساحلوں پر ننگی سیر خوری اور جنسی اختلاط سر عام ،کھیل کھیلے جارہے ہیں۔

بھارت جو جنسی فلموں کا بڑا گڑھ ہے وہاں ایسی مغرب زدہ جنسیت عورتوں کی قلیل الباسی اور کھلے عام معاشقوں کے سبب پھیل چکی ہے کہ وہاں انفرادی آبرو ریزی سے اجتماع آبرو یزی عام بات بن چکی ہے۔

امریکی خاتوں ،سماجی کارکن و ماہر نفسیات میری پایفر[22] کہا کہنا ہے کہ:

ماضی کی نسبت آج کی لڑکیوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا درپیش ہے،مجھے یاد ہے کہ میں جب تیس سال قبل  خود ایک نوجوان لڑکی تھی ، مگر مجھے آج کی لڑکیاں جب سے زیادہ مظلوم اور زمانے کی ستائی ہوئی دکھتی ہیں،کیونکہ وہ ایسی ثقافت کی پیداوار ہیں جہاں جنسی نراج و تصاویر عام بات ہیں انھیں ایسی دنیا میں چلتے پھرتے کیسے تحفظ حاصل ہوسکتا ہے[23]۔

 

اگر تم عورتوں کی بری حالت کو دیگر سابقہ ادیان کی روشنی میں دیکھتے ہو جن سے اہل یورپ اور انکے مقلدوں کو سابقہ رہا  ہے یا انکو اسکا کبھی ذاتی تجربہ رہا ہے اور جنھونے مذہب کی جن اصولیات،فروعیات اور انکی تعبیرات کو طعن و تشنیع کا محل جانا ہے ان مغربی اہل مذہب کو بھت حد تک ایسے ظالمانہ احکامات پر تنقید کا حق جایز طور پر فلسفہ مذہب کی اجتماعی آدرش سے فراہم کیا جاسکتا تھا مگرجب ایمانیات کی اقدار قایم و دایم ہوکر قلوب میں راسخ ہوجاتی ہیں تو ظلم اطاعت کے نقطہ نظر میں متبدل ہوکر قلب ماہیت کا سبب بن سکتا ہے،مگر اسلام کو جبکہ وہ صدیوں سے عورتوں کے جایز فطری حقوق میں آگے آگے رہا ہے کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکنا قطعاً غیر علمی،اخلاقی اور غیر مہذب طریقہسمجھا جانا چاہئے اگر چہ میں اسلام اور دیگر ادیان میں عورتوں کو حاصل حقوق کی تفریق پر کافی اشارے سابقہ سطور میں بیان کرچکا ہوں مگر پھر بھی دوبارہ عود کر یہ دکھانا ضروی محسوس کرتا ہوں کہ عیسائیت اور دیگر ادیان  عورت کی بابت کس پیچیدگیت کا شکار تھے ۔

آگسٹاین نے آدم و حوا کے جس اذلی گناہ کی فکر عیسائیت میں راسخ کی تھی وہ روح و فکر اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ پال (ساول) آف ٹارسس،پیٹر،جیمز ،یوحنا اور فلپ کے بھی اذہان میں ایسے موجود نہیں تھی،مگر   اس فکر کے سبب بعد ازاں سینٹ آگسٹاین عیسائی کلیسا کی رہبانیت کے جواز کو ایک نظریہ فراہم کرکے فکری طور پر عیسائیت کا صدیوں بااثر رہنے والا مفکر بن بیٹھا۔

آگسٹاین کے بعد عورت کی جنسی مبادیات سے روحانی مبادیات تک پر بحث و فکر کا آغاز شروع ہوا جس وقت مدینہ میں اسلام عورتوں کو نبی اکرمؐ کی رہنمائی میں بتدریج شرعی مشروط و جایز آزادی کے ساتھ ساتھ فرایض کی بجا آوری کے مطالبہ کے ساتھ بتدریج حقوق عطا کرہا تھا عین اسی دوران عیسائی یورپ میں عورت کی جوہریت پر گفتگو جاری تھی۔

عین اسی دوران عیسائی علما میکون میں ۵۸۵ عیسویں میں اس بحث میں مشغول تھے کہ آیا عورت جسد و روح کے اختلاط سے متشکل ہوئی ہے یا خالی خولی جسد کا نام ہے،معلوم پڑتا ہے کہ اس میکون مجلس میں مباحثہ انکے ہاتھ رہا جو اسے خالی جسد جانتے تھے اور اسکی روح کو اسکا غیر سمجھتے تھے صرف عظیم باکرہ مریمؑ اس معاملہ میں ایک استثنائی کلیہ کا درجہ رکھتی تھیں۔

یہ بحث اسکے علاوہ فرانس تک میں جڑیں پکڑ چکی تھی،جہاں اسے روح سے اختلاط پذیر  ماننے کا تصور۵۸۶ میں آگ پکڑ رہا تھا ،اب اس فرانسیسی مجلس کے مذاکرہ کار اس ندرت کو شامل بحث کرچکے تھے کہ چلو مان لیا وہ ایک روح رکھتی ہے کیونکہ روح نجات ،حمل،جزا و سزا ،جنت و دوزخ کے لئے ناگزیر ہوتی ہے،مگر اسکی روح ہے کس نوعیت کی حامل ؟جانور کی مشابہ روح بھی اس میں ممکن ہے مگر خیر انکو اتنی عقل تو تھی کہ اس  روح کو انسانی  توروح مانا  گیا مگر اس پر یہ اضافہ کیا گیا کہ ایسی روح جو مرد کی خدمت گزار روح ہوتی ہے، ان مباغث کے برخلاف  اسلام ایسی بحثوں میں بھت سادہ اور واضح ہونے کے ساتھ ساتھ اعمال میں عورت و مرد کی تفریق کا دعوے دار نہیں ہے رسل کو عیسائیت کی ان بحثوں کا تمسخر اڑانے میں خاصی فرحت محسوس ہوئی جب اس نے اپنی کتاب: میں عیسائی کیوں نہیں ہوں میں انکا تذکرہ فرمایا ۔

ارسطو کی علمیت  و سیادت عموماً ملحد وغیر ملحد سبھی مانتے ہیں اس طرح سائینس والوں کو بھی وہ کچھ حد تک سائینسدان دکھتا ہے ، بعد ازاں اسکی قیاسی منطقی منھج کو عیسائیت سے لیکر اسلام تک میں رسوخ حاصل ہوا بلخصوص عراقی فقہ یا فقہ حنفی میں اسے اہم ماخذ گردانا گیا اسکی اپنی تحقیق بقول رسل اتنی گھری دیرپا اور پر تجربہ نہیں تھی کہ وہ ایک قریبی مشاہدے یعنی دانتوں کی تعداد پر کچھ  زیادہ محققانہ کہہ پاتا خیر دانت تو ہم میں سے کسی نے خود سے کسی دوسرے کے نہیں گنے ہونگے مگر  ہمارا کوئی دعوی دانتوں کی بحث میں کچھ نہیں ہے۔

خیر چچا ارسطو عورتوں اور غلاموں کو مردوں سے کمتر جانتا تھا ،اسکے لیے اسکے پاس جو جواز تھے ان میں یہ سے ایک  دلیل یہ بھی موجود تھی کہ عورت کی عقل تو مرد سے کم ہوتی ہی  ہے  کیونکہ اسکے دانتوں کی تعداد بھی اس سے کم ہوتی ہے۔[24]

رسل کی  اس پر یہ تنقید ہے کہ  اگر چہ اسکے پاس دو بیویاں  موجود تھیں مگر اس نے کبھی انکے دانت گن کر اس مفروضہ کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ،شاید رسل نے تجربہ کرنے کے لئے گنے ہونگے  یا اس نے طبیبوں اور جراحوں کی کتابی خبروں پر صغری قایم کیا ہوگا؟،ایا خود کسی کو  روشنی میں داخل کرکے اس مفروضہ کو غلط ثابت کیا ہوگا اتنا تو طے ہے کہ اہل مذہب کے ساتھ ساتھ اہل سائینس اور فلاسفہ بھی ٹھیٹ مقلدیت کے اسیر ہوتے ہیں،بھلا گھر کی چیز کے دانت نا گننا صدیوں کا ظلم ہی کہا جاسکتا ہے۔

اگر ایک طرفآج کا  مشرق مغرب کو دیکھ رہا تو ساتھ ساتھ یہ ذہنی غلام مشرق یہ بھی دیکھ لیتا کہ انکا پیارا مغرب اپنی جدیدیت ،مغربیت اور نشاۃ ثانیہ کی تباہ کاریوں سے  خود بڑا پریشان  ہوچکاہے  جیسا کہ ہنٹنگٹن کو اصرار ہے کہ مغربیت و جدیدیت کو علیجدہ علیجدہ  علیجچہ رکھا جائے،اسکے مطابق یہ جدیدیت شروع شروع کی اقدار بدلی کا کھیل ہے مابعد اس میں اپنے ماضی اور ثقافت کی انفرادیت اور اسکے طرف رجعت کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، ویسے بھی اسی مغرب کے لوگوں کا خود کے بارے میں اور اپنی عورت کے بارے میں اب نسبتاً ذرا ایک مختلیف موقف تشکیل پانے لگا ہے ۔

الیکس کیریل کا کہنا ہے کہ:

موجودہ سماج کی دیگر غلطیوں کی طرح اسکی نمایاں غلطیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اس نے اول تو تربیت کی اہمیت کو فرموش کردیا  ہےاور اگر اسکو  کچھ اہمیت دی بھی ہے تو  صرف اتنی کے خاندان کے جگہ اسکولوں کو اہمیت دینے لگے ہیں،آج کی ماں اپنے بچوں کو نرسری میں اس لئے چھوڑ کر جاتی ہے کہ وہ اپنی معاش کے لئے ،اپنی شہوت رانی کے لئے،فضول قسم کی فنون پرستی کے لئے،برج کھیلنے کے لئے ،سینما جانے کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت بچانا چاہتی ہے،اس طرح خود کو بے کار اشیا میں مشغول کرنے کے درپہ ہے،اس طرح کی حرکات و سکنات نے خاندانی نظام جو تربیت کے لئے ناگزیر ہوتا ہے کو تتر بتر کرکے رکھ دیا ہے۔

مسز ہٹسن شا نامی طبیعات دان کا کہنا ہے کہ:

ہماری تہذیبی بنیادیں تباہ ہونے کے قریب ہیں،کیونکہ اسکی بنیادوں کا ضعف نمودار ہوچکا ہے،جبکہ اسکے شہتیر ہل چکے ہیں،نا جانے یہ عمارت کب کہاں پیوندِ خاک ہوجائے،عرصہ دراز سے ہمارا مشاہدہ ہے کہ لوگ نظم و ضبط کی پیروی کرنے سے گریزاں ہیں،اسکے بقا کی یہی صورت مجھے نظر آتی ہے کہ مرد و عورت کے آزادانہ میل جول پر پابندی عاید کردی جائے۔

کہنے کو مرد و عورت کی برابری کی بابت دعوے کرنے والے یہ کہتے ملتے ہیں کہ بطور جنس دونوں یکساں ہیں بس ظاہری وظایف و صفات کا تنوع الگ الگ ہے مگر اہل مغرب کے ماہرین اس بحث کے جوہر کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں،مرد کا عورت کی طرف اور عورت کا مرد کی طرف میلان ڈھکا چھپا قصہ نہیں حقیقت ہے،مرد و عورت کے مخلوط تعلیمی ادارے ہونے چاہئے یا نہیں میری بحث کا محور نہیں ہے،میں خود ایک مخلوط تعلمی ثقافت کی پیداوار ہوں اور جانتا ہوں کہ اس نظام کے بالغ حصے میں مرد استاد اور اسکی شاگردائیں باپ بیٹی ،بھن بھائی نہیں ہوتے ہیں نا ہی ہماری شریعت انھیں محرمات تسلیم کرتی ہے،چناچہ دونوں درون خانہ ایک دوسرے سے جتنا ممکن ہو مادی وجنسی فائیدہ اٹھا لیتے ہیں،کئی اساتذہ ظاہراً اپنی شاگرداوں کو بیٹی یا بھن کہتے ہیں مگر درون خانہ دونوں میں تعلق رومانوی و جنسی ہونا کوئی غیر معروف بات نہیں ہے،یہ تو ہمارا معاشرتی ڈھکوسلہ ہے  ہمارے برخلاف مغرب یہ جھوٹے خود ساختہ منافقانہ رشتے بنا کر کھیل نہیں کھیلتا ہے،وہ عموماً گناہ ہو یا ثوب ہو اسے با بانگ دھل سرانجام دینے میں ہی فخر محسوس کرتا ہے۔

لڑکیاں شاید اپنے ہم عمر لڑکوں کے حسن و عمر،قد و قامت سے متاثر ہوتی ہونگی  ان پر مرتی ہونگی مگر،شاگردائیں اپنے اساتذہ کی علمیت،طرز نشست،طور اطوار،بلخصوص زبان دانی سے جلد متاثر ہوجاتی ہیں،فرائیڈ کے مطابق پیدا ہوتے بچے میں بھی جنسی لذت کا احساس پایا جاتا ہے،بیٹی باپ کی طرف جھکاو رکھتی ہے اور بیٹا ماں کی طرف جھکاو رکھتا ہے۔

مجھے میری کئی ہم جماعتوں نے بتایا ہے کہ لڑکی استاد سے متاثر ہوتی ہے اور استاد کے کسی لڑکی کے طرف جھکاو سے تشویش کا شکار ہوجاتی ہے،یا جلن کا شکار ہوتی ہے،کچھ ناز و انداز سے اظہار کردیتی ہیں تو کچھ ،ڈھکے چھپے انداز میں اظہار کرتی ہیں اور کچھ موقع دیتی ہیں کہ ان سے اظہار کیا جائے،عورت کیا سوچتی ہے اور  اسے کیا پسند ہے اس بابت  اسکی آنکھیں ظاہراٍ بہت کچھ کہہ دیتی ہیں مگر اسکی حیا اسکے لبوں سے اسکا انکار کروادیتی ہیں۔

اور یہ سب ظاہر ہے ہمارے مخلوط تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ ،دو مختلیف مگر ایک دوسرے کی طرف جھکاو اور التفات رکھتی جنسوں کی فطرت کے بھی سبب ہے اہل مغرب کو شروع سے ان امور کی تفتیش میں بڑی دلچسپی  رہی ہے وہ کبھی کاروباری تناظر میں تو کبھی تعلیمی،علمی و نفسیاتی تناظر میں ایسی کتھاووں کی تفتیش میں سر پھوڑتے نظر آتے ہیں۔

سوشل علما نے اس امر میں تحقیقات کرکے یہ دیکھنے پرکھنے کی کوشش کی ہے کہ حسن و جمالیات کا سماج و تعلقات میں کیا کردار رہا ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ جیرالڈ ایڈم جیسے سماجی سائینسدان  نے بھی یہ امر تسلیم کیا ہے کہ لوگ حسن سے متاثر ہوتے ہیں چھرہ جسکا آئینہ دار ہوتا ہے یعنی چھرہ جنسیت کی قوت میں اضافہ کرتا ہے ،اور جسمانی ساخت میں دوگنا اثر بڑھا دیتا ہے،بلخصوص عورت کا چھرہ باہمی تعلقات کی قوت میں کئی گنا اضافہ کرتا ہے۔[25]

آج ہم جسمانی طور پر شاید خود کو آزاد محسوس کرتے ہوں یا اپنی انا پر پڑنے والی چوٹ کی ضرب سے بچنے کے لئے خود کی آزادی کے دعوے کرتے ہوں  مگر حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں اور دیگر استعماری قوتوں نے محکوم ممالک کو اول جسمانی غلام بنایا پھر بعد ازاں بتدریج جامعات کے ذریعہ انکی روحوں کو بھی غلام بنالیا ،انھونے جب کہ دیکھا کہ وجود پر حکمرانی میں نقصانات اور تاریخی بدنامی زیادہ مل رہی  ہے،جسکے سبب انکا سیاسی ،علمی اور ثقافتی اثرو نفوذ کمزور پڑ رہا ہے  لہذا انھونے اپنی کمزور ہوتی حالت کو بچانے کے لئے سیاسی آزادی دیکر  بدلے میں انکی جوہری آزادی اپنے قبضے میں کرلی ، اس ضمن  میں انکی فکری معاونت کے لئے جامعات اور سماجی علوم نے یہ کام بخوبی طور پر سرانجام دیا،ہماری تحریک آذادی کے زیادہ  تر رہنما اور سیاسی کارکن وکالت  کی تعیلم اور اسکے شعبہ سے وابستہ تھے چناچہ انکے ذریعے برطانوی قانونی نظام،اقدار ،اور روشن خیالی مسلم قیادت میں بھی نفوذ پذیر کرگئی،سماج،سامراج،ریاست ،حکومت،تعلیم اور اس سے تشکیل کردہ اقدار کا بڑا باہمی تعلق ہوتا ہے۔ذیل کے اقتباس سے گفتگو میں رنگ پیدا کرنے کی امید کرسکتے ہیں۔

نیویارک یونیورسٹی کے یہودی محقق نیل یونٹ مین کہتا ہے کہ:

ہر دور کا ایک مخصوص سامراجی نظام ہوتا ہے،عین ایسے جیسے ہر فاتح کے بھی سامراجی عزایم ہوتے ہیں،جیسا کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانیہ نے اس فن کو بکمال بروئے کار لانے میں چابک دستی کا مظاہرہ کیا تھا،چناچہ جب وہ کسی ملک پر حملہ کرنا چاہتا تو وہاں اپنے بحری طاقت بھیجتے پھر بعد میں ادھر ذمینی دستے بھیجے جاتے،اسکے بعد انتظامیہ کا عدد آتا اور  آخر میں اپنا تعلیمی نظام اس ملک میں نافذ کردیتے تھے۔[26]

برطانوی جامعات نے جو ہمارے اجداد کی ذہنی تربیت کی وہ ان میں بھلے اتنی طاقتور نہیں رہی ہو جتنی برطانیوں  کو مطلوب تھی مگر اسی نمونہ  و نصاب پر استوار ہماری ملکی  جامعات نے ہمیں ہمارے بڑوں سے کئی گنا زیادہ آزاد خیال اور جدید الفکر فرد بنادیا ہے،شاید بھارت میں لوگ ،دین و دنیا کو مذہب سے ہٹ کر ویسے  الگ الگ شہ نہیں سمجھتے ہوں،جیسا آج ہماری نئی نسل کا موقف ہے مگر جدید پاکستانی ریاست میں اسلام کا نام استعمال کرنے والے اورعدم استعمال کرنے والوں کی نیت و اہداف جموہریت نوازی اور اسکے لوازمات سے محبت کے سبب یکساں رہی ہے،اس کے نتیجے میں ہماری لوگ انسانی حقوق ،نسائیت و جمہوریت کی روشنی میں  اپنےسارے اقدار کو منقلب کرنے لگے ہیں،جسکا ایک چھوٹا سا نمونہ عورت مارچ اور اس سے متعلقہ مباحثہ ہے۔

جدید الفکر عورت چاہے وہ حجاب کرتی ہو یا،حجاب نا کرتی ہو،عبایہ پہنتی ہو یا جینز چڑھاتی ہو ،چاہےاسکے افکار اقدار کی اصلاح چاہتے ہوں، یا مرد کی برابری اسیکی نئی ایمانیات میں شامل ہوں،یا اس  وہ کلی طور سے  اس بدنصیب مرد سے کامل نجات کی شوقین ہو ان سب  طرح کی خوایتن کو اپنی پیشرو نسل کی خواتین کی تشکیل کردہ صدیوں کی اقدار سے اللہ واسطے کا بیر  رہا ہے۔

 آج پھر اپنے ذہنی و فکری  یا پھر قلبی قرار کے لئے موجودہ مغرب مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے،اور  ہمارا یہ مغرب صدیوں سے مشرقی عیسائیت، اسلام اور مشرق کی بابت غلط فہمی کا بھی شکار رہا  ہےاور ساتھ ساتھ  یہاں کی خواتین کو دیکھنے کے لئے پرتجسس بھی  رہا ہے،اس کی کارٹونوں میں ایک ایسی کارٹون کی شبیہ اکثر چھلکتی ملتی ہے جس میں صحرا میں موجود نخلستان میں ایک عرب گندمی رنگت کی بڑی بڑٰ ی کالی آنکھوں والی ،گھنی زلفوں والی،پتلی کمر بھاری کولھوں اور ابھرے سینے کی حسینہ بکریوں کے ساتھ ٹھلتی نظر آتی تھی،کوئی اسکو نقاب پہنادیتا تھا،کوئی حجاب،کبھی یہ قافلے کے ساتھ عربی میوزک کے پش منظر میں اونٹ پر بیٹھی سفر کرتی دکھتی تھی۔

یہ تو خیر فلموں ،کارٹونوں،اور ڈراموں کی کلاسیکل عربی حسینہ کی تصویر کشی ٹھری  ایک مغربی اسکو کیسے بیان کرتا ہے اور خود کے لوگوں کی غلط فہمی کو کیسے عیاں کرتا ہے ذرا غور سے ذیل میں اقتباس پڑہیں۔

فرانسیسی تاریخ دان لیوں مشل لکھتا ہے کہ:

ہر یورپین کو سمجھو یہ گمان ہوتا ہے کہ جب وہ افریقہ(کے مسلمان ممالک) جائیگا،تو اسے وہاں ایسے خوبصورت و شاندار محلات سر اٌٹھائے نظر آئینگے جنکی بالکونیاں سڑک پر کھلتی ہونگیں،اور جہاں ایک پرکشش قیدی(یعنی کوئی افریقی یا افریقی مسلمان خاتون)اس انتظار میں کھڑی ہوگی کہ کب ایک چمکتی ذرہ پہنے ہوئے فرانسیسی جوان آکر اسکی نجات و مکتی کا سامان پیدا کریگا،یہ حضرات بھول جاتے ہیں کہ وہاں بالکونی پر لگی موٹی جالی(عربی:شناشیل:مشربیہ)اس بات کو ناممکن بنادیتی ہے کہ کوئی باہر والا اندر جھانک تانک کرسکے۔[27]

معاشرتی و مذہبی پابندیاں مردوں اور عورتوں دونوں کو ہی حدود و قیود میں رکھتے ہیں بلخصوص مرد کی جسمانی و جنسی فطرت ان میں تند و تیزی اسے عورت کے مقابل زیادہ غصیلہ،ہٹیلا،لڑاکا اور زیادہ محرک بنادیتے ہیں اسی بات کو ایک سماجی سائینسدان یوں بیان کرتا ہے ۔

الفرڈ کنزی کا موقف یہ ہے کہ:

اس میں کسی شک کی گنجایش نہیں ہونی چاہئے کہ اگر معاشرتی حدود و قیود موجود نا ہوں تو پوری دنیا کے مرد کثیر تعداد میں اپنی کل حیات میں خواتین سے شادیاں کرتے پھرتے، جو عموماًمردوں کی خواہش کے برعکس بیک وقت ایک مرد کے ساتھ میں ہی خوش رہتی ہے۔[28]

اقدار ، بھت حد تک کسی نظریے،فکر،تصور یا عقیدے کی مابعد الطبیعات کی اساس بھی کہے جاسکتے ہیں اور اسکی اخلاقی پیمایش و رفعت کا قدری اظہاریہ بھی گردانے جاسکتے ہیں،چناچہ ہم معاشرتی ہوں یا مذہبی اقدار ہوں ہر ایک کی اہمیت کو نا ہی بطور مرد مسترد کرسکتے ہیں اور نا بطور عورت ہماری شخصیت انکے احاطہ سے باہر ، لہذا مغرب کا مرد ہو یا مشرق کی عورت دونوں اپنی سماجی قدریں اپنے اقدار پر استوار کرتے ہیں۔

گوربا چوف سویت یونین کا وہ حکمران فرد ہے  کہ جس کی حکمرانہ  پر سویت یونین کا وفاق اختتام پذیر ہوا ،اس نے یلسن سے قبل ہی بھت سے امور پرکھ  اور سمجھ لئے تھے،اسکی پراسڑایکا اور گلاسنوسٹ کی حکمت عملیاں اشتراکی سماج کی آخری بنیاد ہلانے والی حکمت عملیاں تھیں اسے روسی سویت وفاق کی اخلاقی کمزوریاں بھی سمجھ آچکی تھیں، لہذا مشرق کی سرخ انقلاب کی حامی عورتیں،مائیں اور لنگڑے لولے مارکسی مرد ذرا اسکا تبصرہ غور سے  پڑھیں۔

گورباچوف لکھتا ہے کہ:

اب خواتین کے پاس اتنا وقت نہیں رہا  ہے کہ روز مرہ کی ذمہ داریاں پوری کرسکیں،میرا مطلب ہے گھر کا کام،بچوں کی تربیت،اور فیملی کا ماحول پیدا کرنا،ہم نے یہ دریافت کیا ہے کہ ہماری مشکلات یعنی بچوں اور نوجوانوں کا رویہ ،ہماری اخلاقیات ؛کلچر اور پیداوار میں کمی ان سب مشکلات کی ایک بنیادی وجہ خاندانی رشتوں کا کمزور ہونا،اور خاندانی ذمہ داریاں نبھانے میں سست روی اختیار کرنا ہے۔

مابعد جناب گوربا چوف معاشرے سے ایک چبھتا ہوا معنی خیز سوال دریافت فرماتے ہیں کہ:

What should we do to make it possible for Women to return to their purely Women Mission?

ہم ایسا بلآخر کیا کرسکتے ہیں کہ ہماری خواتیں اپنے اصلی مشن(منزل مقصود) یعنی خواتین کی اصل ذمہ داری کی طرف رجعت اختیار کرسکیں؟[29]

میری جابجا متعلقہ بحثیں جو ممکن ہے کچھ حضرات کی نگاہ میں غیر متعلقہ گفتگو ہوں اور مذکورہ بالا حوالہ جات اتنا تو بیان کر ہی چکے ہونگے کہ مغرب جسکے طرف مشرقی نسائیت نگاہ پھاڑ پھاڑ کر رہنمائی و تقلید کرنے کے لئے دیکھ رہی ہے خود اپنی اساس و نسائیت پر کیا سوچنے لگا ہے، جدید الفکر خواتین و حضرات کے اٹھائے گئے زیادہ تر سوالات کا جواب میں تین جوابوں اور انکے بعد کی بحث میں دے چکا ہوں انکے پس پشت علمیت سے اٹھتے  مسایل اور ان پر مغرب کے نقد پر بھی کافی کلام کردیا گیا ہے۔

اقدار کی بحث سے قبل کچھ گفتگو ہم نے ایک حوالے کے ذریعے مغرب کے چند سو سال قبل کے مردوں کے تناظر میں کی تھی جسے یہ گمان تھا کہ وہ مشرق جاکر وہاں کی عورت کو بھلا پسھلا کر آزاد کرواسکتا ہے،اور بالکونی میں لٹکی عورتیں اسکا  فقید المثال استقبال کرینگی،اگر اس  بحث کے سیاق و سباق کو بہ نظر غایر دیکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ مغرب  ہو یا اسکے مقلدین دونوں کو عورت چھپی ہوئی نہیں،کھلی ہوئی پسند ہے ،جیسا کہ جرمنی اور ہالینڈ کے نیوڈ(برھنہ) ساحلوں پر مادر پدر آزادی کے ساتھ جنسی جوڑے اور پورے پورے خاندان مکمل ننگے گھومنا آزادی و تہذیب کی معراج سمجھتے ہیں اسی طرح صدیوں بعد بھی مسلم دنیا کی عورتوں کی بڑی تعداد چاہے وہ نقاب لیتی ہو یا حجاب یا دوپٹہ لیتی ہو اپنی مرضی کے ان اظہاریوں کو پسندیدگی کی نگاہ سی دیکھتی ہیں،اور جبھی یورپ و امریکہ ریاستوں پر دباو،اور اپنی تخلیق کردہ،ہدایت کردہ این ۔جی اوز کے ذریعے انکی ذہنی کایہ کلپ کرنے میں مشغول ہیں،جسکا نتیجہ بلآخر نوے سال بعد یہ نکلا کہ سعودیہ نے بھی اعتدال پسندی کے نام پر ریاستی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کی اور مرد اور  مردوں کو س تناظر میں کئی آزادیاں عطا کیں مگر بہ حیثیت مجموعی شھریوں کی بڑٰی تعداد نے ان اصلاحات کو پسند نہیں کیا ہے،کچھ عشروں قبل ایک تحقیق میں اہل مغرب کے متعصب محقق کو بھی مسلمان عورتوں کی ان فکری بنیادوں نے حیرت و استعجاب کا شکار  کردیا تھا۔

نکولس کرسٹاف ایک متعصب اسلام مخالف محقق جانا جاتا ہے اور اسکی تحقیقات،سروے،انٹریوز میں مختلیف اخبار و جراید کی زینت بنتے رہتے ہیں اس کو ۲۰۰۲ میں یہ خیال چرایا کہ مسلم عورت پر کچھ لکھے ،جسکے لئے اس نے کچھ مسلم خواتین سے انٹرویوز کئے چناچہ بعد ازاں  یہ تحقیق نیویارک ٹایمز میں چھپی،اسکی حجاب کی مخالفت اور افکار سن کر معلوم پڑتا ہے کہ خواتین نے اسکا موقف نہیں مانا  تھا ابلکہ  الٹا حجاب کی حمایت کی تھی۔

 

لانا نامی ایک نیوٹریشنل طبیب نے اسکے دریافت کرنے پر اسے بتایا کہ:

میں اپنا جسم و چھرہ ڈھانپ کر رکھتی ہوں،اور اسی میں خوش ہوں ویسے بھی میں ایک مذہی رجحان کی حامل لڑکی ہوں،جو احکامات خداوندی کی پیروی کرتی ہے،میں چاہوں تو کوئی  بھی کھیل کھیل سکتی ہوں،ریسٹورانٹ جاسکتی ہوں،جو چاہوں پہن سکتی ہوں مگر مردوں کے سامنے نہیں،آخر میں اپنی ٹانگیں اور جسم مردوں کو کیوں دکھاوں کیا اسی کو آزادی کہتے ہیں؟(آپ لوگ)

نکولاس کو دوران انٹرویو ریاض شھر کی خواتین نے یہ بتایا کہ:جنھیں آزاد عورت کہتے ہیں وہ دراصل سعودی خواتین ہی ہیں،ہر قسم کے جنسی استحصال ،عریاں فلموں اور میڈیا سے آزاد،اپنے اجسام کو گاڑیوں اور کوکا کولا کے اشتھارات کا حصہ بنتا دیکھنے سے آزاد ،یہ دراصل مغرب کی عورت ہے جسے مردوں نے اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنا رکھا ہے[30]۔

 میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ ہنٹنگٹن مغربیت و جدیدیت میں تفریق پر بار بار زور دیتا ہے،اسکے مطابق جدیدیت شروع شروع کا کھیل ہے بعد میں مقامی ثقافت اور ریاستی مفادات اسی مقامی و ذاتی بنالیتے ہیں جدیدیت پہلی سیڑھی پر تخریب در تخریب کرتی  چلی جاتی ہے ،دوسری سیڑھی پر اپنے ذاتی تشخص و انفرادیت کا مسلہ جدیدیت کو دعوت مقابلہ دینے لگتا ہے،عین اسی طرح جہاں  ایک طرف مشرق کا ایک طبقہ جدید تر بن رہا ہے،اجبکہ دوسری طرف مشرق و مغرب کا ایک جدید طبقہ دین کے قریب ہوتا جارہا ہے،یہاں سے جو لوگ آزاد خیال مغرب جاتے ہیں  وہ وہاں مذہبی بن جاتے ہیں اور جو مذہبی  ہوکر جاتے ہیں وہ کبھی کبھار آذاد خیال بن جاتے ہیں۔

اسی طرح مغربیت و قدیمیت کی کشمکش اکثر کی نگاہ میں،بنیاد پرستی اور روشن خیالی کی کشمکش ہے،یہ ایک چوراہے کی طرح ہے جو بھت بڑا ہے اسکے گرد لوگ مسافت طے کرتے چکر لگاتے ہیں اور نقطہ نظر اپنے اپنے تجربات و میلانات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں، میرا ناقص مشاہدہ مجھے یہ باور کروارہا ہے کہ مذہب مغرب میں واپس جگہ بنا رہا ہےجبکہ  مشرق میں یہ  کہیں کہیں ایک خاص کلاس میں  بھی اپنی  جگہ بناتا ہوا دکھ رہا ہے مگر ساتھ ساتھ   یہ بھی ہے کہ ان سب سے بڑی تعداد میں ایک نئی نسل دین کی  طرف واپس آرہی ہے،اسی بات کو جان اسپوزیٹو نے بھی محسوس کیا ہے جو مغرب کے چوٹی کے مشرقی امور اور اسلام کا محقق مانا جاتا ہے  جسے  عصر حاضر کےجدید علمِ استسشراق   میں بڑا رتبہ حاصل ہے  اور وہ اس بابت  کیا کہتا ہے ذرا کان لگا کر سنیں:

جان اسپوزیٹو کہتا ہے کہ:

اسلام کے جدید دور کی تاریخ نے ہمارے بھت سے اندازوں کو غلط ثابت کردیا ہے،عمومی طور پر تو یہ دیکھا گیا ہے کہ جب عامتہ الناس کو جدید تر بنایا جاتا ہے تو معاشرے سیکولرازم کی طرف جھکاو رکھنے لگتے ہیں۔جدیدیت دراصل عقل کے استعمال کا نام ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ سائینس و ٹیکنالوجی جیسی چیزوں سے سیکولرآیزیشن کو فروغ ملتا ہے،مگر عصر حاضر کے مسلمانوں کی مذہبی بیداری نے تاریخ کے ارتقائی نظریہ کو غلط ثابت کرکے رکھ دیا ہے۔

حقیقت اس رد عمل میں پنھاں ہے کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں جتنی ماڈرن بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہاں اتنی ہی مسلم بیداری بیدار ہوئی ہے،جبکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے ٹیکنالوجی و جدید تعلیم بھی مذہبی ایمان و عمل کو نیچا دکھانے کے بجائے مذہب کی  معاون ثابت ہورہی ہیں[31]۔

اگر غور کریں تو بخوبی جان لینگے کہ عورت مارچ اور اسکے مد مقابل حیا مارچ درحقیقت مذکورہ بالا بحث کے تناظر میں کافی شافی علمی اشکالات کو رفع کرسکنے کے حامل مواقف کا عملی ثبوت ہیں۔

عورت مارچ والیاں ہوں یا انکے حمایتی حمیت و غیرت کے معنی و مفہوم سے ناآشنا مرد ہوں جو اپنی عورتوں پر قابو پانے کی صفات کی کمی کو اس دعوے سے پورا کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم اپنی ،بھن،بیٹی،بیوی،ساتھی یا ایسے اور اس کے مماثل  کسی بھی تعلق کی حمایت کرکے درحقیقت رجعت پسند معاشرے میں نقارہ بجانا  چاہتے ہیں،فرض کریں جدیدیت،روشن خیالی،سیکولرازم کچھ سال جڑیں پکڑ لیتی ہیں ،ایک دو دھائی ،پانچ یا دس عشرے بعد اگر یہ قصہ پارینہ بن جائیں اور جنکو آج ہمارے دور میں قدامت پسندی و رجعت پسندی کہا جاتا ہے وہ اس دور کا لیٹیسٹ جدید موقف مانا جائے تو اس وقت یہ اپنی فکر کی ترویج کو کیا نام دینگے ؟،کیا وہ جو آج انکی نگاہ میں رجعت پسند ہیں ،مگر کل وہ انکے مقابل جدید نئے موقف کے حامل جانے جائینگے ،یا میں نا مانوں بات کی رٹ کو دھرا کر پھر بھی اسے قدامت پرستی کہنگے ،حلانکہ نئی نسل کی نگاہ یہی نیا فیشن اور ٹرینڈ ہوگا  اور خود انکی نئی نسل ممکن ہے انکو بھی رجعت پسند قرار نادینے لگے؟

 اتنا تو سمجھنا  چاہئے کہ اقدار چاہے مذہبی ہوں یا غیر مذہبی  نوعیت کے حامل ہوں یہ سب ہی ایک خاص نظم و ضبط اور ضبط نفس کا تقاضہ کرتے ہیں،ہم بار بار یہ بات دھرا چکے ہیں کہ جو مذہب اور اسکے اقدار کے منکر ہیں وہ خود  بھی  انکے مقابل نمٹنے کے لئے کسی موقف یا مذہب کے حامل ہوتے ہیں، اور لازماً انکے مد نظر بھی کچھ  نا کچھ اقدار موجود  ہوتے ہیں،جبکہ اس بحث وہ لوگ جو فری اسٹایل ریسلنگ والا رویہ اختیار کرکے،متنوعیت،ثقافتی تکثیریت،آزاد خیالی کے لامحدود چھکے چوکے مارنے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ دراصل نراجی قسم کے لوگ  ہوتے ہیں،ضمیر کی آواز،اخلاقی اقدار کے منکر،فکری خانہ بدوش  واقع ہوتے ہیں،یہ عورت مارچ نما افکار کے حامل لوگ دراصل نا ہی  مغرب کو صحیح  طرح سمجھ سکے ہیں اور نا خود کو جان پائے ہیں ، حلانکہ صھٰح ہو یا غلط ،نیک ہو یا بد،خیر ہو یا شر مغرب کے بالغ الفکر مفکرین و سائینسدان بھی کسی نا کسی نھج سے اقدار و اخلاق کو مانتے  اور تسلیم کرتے ہیں دو چار حوالے ذیل میں دماغی لطف و ذایقہ  کو دوبالا کرنے کے لئے پیش خدمت کئے جاتے ہیں:

پال جانسن جیسے مورخ کو یہ کہنا پڑا ہے کہ:

ہم ایک ایسی دنیا میں جہاں منطق کے اصول و قوانین بدل جائیں اور اور شکست و ریخت کا شکار ہوتے نظر آئیں،یہ بات دیکھ کر کر کچھ خاص حیرت نہیں کر پاتے ہیں کہ  جدید دور ویسی صورت نہیں اپنا سکا ہے جیسے وہ ۱۹۲۰ میں تشکیل شدہ  نسل کو منطقی دکھتے تھے۔

رسل کو مذہب ،بلخصوص عیسائیت پر کافی تحفظات تھے،منکر دین لوگوں کے نزدیک آج  وہ  ایک حوالہ جاتی سند جانا جاتا ہے مگر اسے بھی سماجی نراجیت اور اخلاقی ابتری پر بڑی تشویش محسوس ہوئی تھی جیسا کہ وہ بقول جوزف ووڈ کرچ[32] کہتا ہے کہ:

ظابطے اور پیمانے قیاسی چیزیں ہیں ،لیکین بحر حال یہ امر بھی بے حد مشکوک دکھتا ہے کہ کوئی انسان اس یقین کے بغیر کہ وہ جیسے بھی حقیقی پیمانے ہیں،روحانی یا طبعی طور پر زندگی گزار سکتا ہے۔کیونکہ ان ظابطوں کے بغیر معاشرہ انارکی کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور فرد کو  اپنی ذات و کائینات کے درمیان قایم ہوجانے والے ناقابل برداشت عدم توازن  اور بے ہم آہنگی کا احساس ہونے لگتا ہے،آخر کار وجدانی و جذباتی طور پر انسان  آج ایک اخلاقی جانور سے زاید کچھ نہیں ہے۔

لیوش ممفورڈ[33] اس بات پر افسوس کرتے ہوئے اقدار کی بے قدری کا یوں رونا روتا نظر آتا ہے:

پتھر کے دور کا غریب ترین وحشی بھی غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہی اتنی مفلس،کنگال،اور اخلاقی گراوٹ میں لتھڑی ہوئی سماجی  زندگی کا فرد رہا ہوگا جیسے ہم ہیں۔

 

جب افکار بازاری کے سبب بھانت کی بولیاں ہر نکڑ و چوک پر بولی جانے لگیں، ہرایرے غیرے اور  نتھو خیرے کی چاندنی ہونے لگی ،ہر فرد جمہوریت،سرمایہ داری،اور سیکولر ازم کے دم پر افکار و ثقافتوں کے تنوع کی ایمانیات میں آزادی رائے کی مطلق العنانیت کو ملا کر آٹا گوندھنے لگا تو مغرب والے بھی ان اضافی و ذاتی،خودساختہ خیروں کے تصادم سے ڈرنے لگے اور  انھیں ان کے اتنی کثرت کے سبب نمودار ہونے والی ضبو حالی پر اپنی تشویش چاندی کے ورق میں لپیٹ کر ظاہر کرنی پڑی۔

جیسا کہ جوزف فلیچر[34] کو کہنا پڑا کہ:

 اضافی اور متعلقہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی نا کسی کے حوالے سے یہ اضافت ہوگی،قطع اضافی ہونا خود میں  میں غیر مرتب ہونا ہے،ناقابل قیاس،ناقابل تصفیہ،لایعنی اور غیر اخلاقی ،حقیقی اضافیت کے ہونے کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ اسکی کوئی معروضی اور مطلق قدر ہو۔

 ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کی نگاہ  میں فلیچر عام فہم  اور صریح بات  قارئین تک نہیں منتقل کرسکا ہو

 ڈنکن ولیمز[35] کو اس بات کو عام فھم مگر واضح انداز میں سپرد قلم کرنا پڑا کہ:

ایک غیر منظم ،منتشر اور اٹکل پچو دنیا میں وفور جذبات سے ابھرنے والے نتیجہ پر بھروسہ کیوں کیا جائے؟۔[36]

اگر اس پوری بحث اور مابعد کی تحریروں کو بہ نظر غایر مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے اور کسی کو خود کے مسلمان ہونے پر بھی اصرار ہوتو وہ عقل کے ناخن لے ورنا اپنی منافقت و دینی غداری پر ماتم کرے۔

عورت مارچ میں آئی ہوئی خواتین کے پوسٹرز کا اگر معاشرتی،ثقافتی تناظر میں بھی مشاہدہ النفس کیا جائے تو ان نعروں اور مبھم جنسی اشاروں سے ہی انکے تحریر کرنے والوں اور نعرہ مارنے والوں کے ذوق کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

عورتیں صدیوں سے اپنے معاملات کو جنسی طور ڈھکی چھپی کج رویوں اور اپنے ہم جنسیت  پر جذبات و احساسات کو معاشرہ اور مذاہب کے نزدیک انکے کج روی پر مبنی ہونے کے سبب چھپاتی آئی تھیں،بلخصوص مشرق میں تو انھیں اتنا خفیہ رکھا جاتا تھا کہ دیواروں کو بھی خبر نہیں ہوتی تھی،یہ امور برطانوی دور غلامی کے جدید اوردو ادب میں  اس دوران کھل کر نمودار ہوئے، جب عصمت چغتائی،خدتیجہ مستور،اور منٹو جیسوں نے اس کو کھل کر  اب کے ذریعے معاشرہ میں عیاں کردیا تھا ،اسکی حدت و شدت کتنی ہے اس امر سے اسکا ارتکاب  کرنے والے اور اللہ ہی آگاہ ہیں،مگر جامعات اور یکساں جنس کے کالجز و اسکولوں سے ایسے امور کا معاملہ اکثر و بیشتر خفیہ ذرایع سے معلوم ہوتے رہتے ہیں۔

 جیسا کہ بطور مثال و حجت اگر  ہم ان مطالباتی پلے کارڈوں پر نگاہ ڈالیں جن میں خواتین عورت مارچ میں ان امور کی طرف اشارہ کرکے مردوں کو زنانہ ہم جنسیت[37] میں خود کفالت کی طرف اشارے کرتی نظر آتی ہیں اور انھیں مشورہ دیتی دکھتی ہیں کہ وہ بھی لواطت[38] کو فروغ دیں،اور یہ انکا ڈھکا چھپا موقف ہے کہ مرد مردوں سے تعلقات استوار کریں اور عورتیں عورت سے جنسی تعلقات کرکے جنسی خودکفالت کو رایج کریں اور انکا جنسی استحصال مذید کرنے سے اجتناب برتیں ،لہذا مردوں کو عورتوں سے جنسی تعلقات پر اب زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عورت کو نا ہی  اسکی  اب  تعلقات کے ضمن میں خاص ضرورت ہے اور نا اس قسم کے تعلقات کے لئے  آج کی جدید مشرقی عورت  بقول انکے اپنی خودی کھونا چاہتی ہے۔

اس بیانیہ کو ایک موصوفہ نئے پلے کارڈ میں موجود جنسی مشورے کو اعلان کی صورت میں   اس فحاش بد گوئی سے بیاں کرتی ہے کہ :

تم آگے نہیں پیچھے ڈالو

یعنی  ان جدید الفکر خواتین کے مطالبے کی رو سےآج کے ظالم و جابر صدیوں سے عورت کا استحصال کرنے والے مرد کو اب صنفِ نازک کے فرج کا آسرا چھوڑ دینا چاہئے اور مرد سے ہی لواطت پر اکتفا کرنا چاہئے،یہ  بیانیہ ،مطالبہ اور مشورہ اسے جو بھی نام دے لیں ، ان خاتون کی ماں اسکی بیٹی اور باپ کی باہمی ذہنی تربیت،و تعلق کو عیاں کرتے ہیں، جس سے اسکا تعلق ہوتا  ہے،جنھونے ان لڑکیوں کے ہاتھوں میں اس قسم کے واہیات اور غیر مھذب قسم کےجنسی مطالبے کو تھمایا  سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ لڑکی انتھا کی  بے حیا اور  ہر قوسم کے اقدار کی منکر نظر آتی ہے جو اسے ایسے  غیر فطری روابط و تعلقات فطری نظر آنے لگتےہیں،اس لڑکی کی اقدار میں یہ تغیر جدید دور کی فطرت کے مطابق عین  زمانی و حادثاتی نوعیت کا حامل  ہے ممکن ہے کہ یہ مورثی یا پھر کسبی  نوعیت بھی رکھتے ہوں مگر بحرحال اسکا فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں ہے، ہماری پاکستانی ناقص  اسلامی جمہوریہ میں ایسے نعرے آزادی رائے و اظہار کے نام پر بلند کرنا دراصل  حقوق حاصل کرنے کے مطالبے سے ایک قدم آگے فطرت سے انکار و بغاوت کا نقارہ بجانا ہے،جس  ہماری ریاست کے ارباب ِ حل و عقد منھ میں گھگیاں ڈالے بیٹھے ہیں،شاید ہماری کل قوم کی غیرت کا جنازہ دھوم سے نکل چکا ہے  اگر ابھی  کچھ خاموشی ہے تو کل ان پر  عمل بھی زیادہ دور نہیں ہے۔

آج کل کچھ خواتین ہنسی مذاق میں یہ کہتی دکھتی ہیں کہ ہمارا خاوند ہو یا غیر خاوند ہمارے ساتھ زور زبردستی سے نہیں بلکہ محبت سے تعلق قایم کیا جانا چاہئے ،ہم بھی کافی حد تک اس نعرے و کارڈ کو زوجاوں کے انکے خاوندوں سے مطالبے کے طور پر ہی دیکھتے ہیں باقی ناجایز تعلقات چاہے باہمی رضا سے ہوں یا عدم رضا سے اس میں میں زبردستی کرنا تو کوئی بھی  باشعور اور  ہوشمند انسان پسند نہیں کریگا،جبھی اغلباً اس نعرے میں شوہر ہی کی طرف اشارہ غالب نظر آتا ہے۔

آپ نے سنا ہی ہوگا کہ نا ہوگا بانس نا بجے گی بانسری ایسے ہی ایک موصوفہ یہ پلے کارڈ اٹھائی نظر آئیں تاکہ  پیدایش نر کی بنیاد ہی نہیں ڈالی جاسکے،اور پیدایشِ مادہ پر اس گروہ کی سائینسدان خواتین کوئی نیا کرشمہ دکھانے میں مگن  ہونگیں، مطلب سیدھا سادہ سا ہے کہ  نا  ہی یہ موئی بچہ دانی ہوگی اور نا کوئی  پیدائیشی موقف ہوگا[39] یعنی اب ان کے لبوں پر یہ مطالبہ بھی آگیا ہے کہ ہم بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہیں، لہذا جب یہ ہی نہیں ہوگی مراد شاید اسکے غیر فعال کرنے کی طرف ہے یا سرے سے اسکا وظیفہ و مقام ختم کرنے کی اس بابت اجمال کے سوا کوئی صریح کلام سامنے نہیں آپایا ہے؟،چناچہ یہ اگر ہوگی بھی تو  آئیندہ  سمجھو یہ اب گھسے پٹے بھاری بھرکم  حمل کے عمل میں بروئے کار نہیں لائی جائے گی،ممکن ہے کہ یہ جدید الفکر طبقہ میں ایک زیادہ نرالا ماڈرن نمونہ ہوں اور شاید یہ نعرہ بھی موصوفہ کا ذاتی موقف ہو، جبھی جو صاحب بچے نہیں چاہتے  ہیں وہی ان سے شادی کریں باقی فٹے منھ کرکے دور رہیں۔ ویسے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ موصوفہ اپنے والد  محترم سے اگر وہ انکی نگاہ میں محترم ہیں سے ایسا احتجاج کرتیں تو بھت عمدہ ہوتا؟ کہ کیوں انکی والدہ صاحبہ کو موصوفہ کو حمل میں پالنا پڑا ،وہ اتنا سال انتظار کرواکر بیٹی سے یہ لکھوا کر اپنا وقت ذایع کرتی رہیں جو بیٹی کے ذریعے کہلوایا وہ خود کہہ دیتیں تو آج سالوں بعد جوان ہوکر بیٹٰی کو اتنی محنت نا کرنی پڑتی۔

 ان پلے کارڈوں کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مرد کئی جگہ ان پلے کارڈوں سے اتنے کم عزت محسوس ہونے لگے ہیں کہ انھیں انکے پس پشت بھی تو،ٹڑاپ سے یاد  کیاگیا ہے،اس ضمن میں کھیرے کو  بھی کنیاوں کی جانب سے خود کفالت کا معیار قرار دیا گیا ہے،اور مرد کی بابت صاف صاف  کہہ دیا گیا ہے کہ ہمیں تیری ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہم نے فلاں فلاں سبزی کے ذریعے خود کفالت کی حکمت علمی اخذ کرلی ہے،یعنی کہ عورت مارچ عصمت چغتائی کے لحاف کی ماڈرن تفسیر بنکر سامنے آیا ہے، یعنی اب  اوردو ادب کو ایک نیا معیار ملا ہے جو اسکی جنسی غیر فطری خود کفالت کی عکاسی کرتا ہے۔

ماضی کے سوشلسٹ مارکسٹ،انارکسٹ جس طرح فوجی حکمرانوں کو آمر مانکر انکے خلاف زبان کھولنا انکے خلاف تحریک چلانا ایک نیکی یا آدرش تصور کیا کرتے تھے ،اسی طرح عورت مارچ والے عورت کو ہی نیکی کا ماخذ نہیں تو  کم از کم مساوی رکن تسلیم کرنے پر لازمی  اصراری نظر آتے ہیں،بھارت میں تو کل ڈرامہ اور فلم انڈسٹری عورت کے راج ،قوت،عزت و وقار کے بابت آدرش سے بھری پڑی دکھتی  ہے،چاہے کوئی دیو مالائی مذہبی داستان جیسے راماین و مھابھارت کے ان گنت ورژن ہوں یا تاریخی فلمیں ان  سب میں خواتین اپنے حقوق کے ڈایلاگ بولتی نظر آتی ہیں،کئی ہندو دیومالائی ڈراموں میں خالق کائینات برھما کی کھلی بے عزتی ہوتی دکھائی گئی ہے،شیو تباہی کا بھی دیوتا دکھایا گیا ہے اور وومن رایٹس کا مبلغ بھی ظاہر کیا گیا ہے،ایسے ہی ایک ڈرامے آدھی دیوی(پاروتی) میں اسے تشویش ظاہر کرتا دکھایا گیا ہے کہ ،تری مورتی سے بڑی کوئی شکتی ہے جس نے تری مورتی کو بھی یہ سب فرایض و وظایف سونپے ہیں ،پھر شیو کی زوجا پاروتی کو آدھی شکتی اور کائینات کی اصل قوت کے طور پر دکھایا  گیا ہے،جدید صدی بھارت میں ہندو دتا کے عروج کی صدی ہے رام،اور وشنو جیسے صدیوں کے طاقتور دیوتا کی جگہ طاقت،تباہی کی جوڑی شیو اور کالی ہندو ڈراموں کی بالا تر قوت کے طور پر نظر آنے لگے ہیں،انکے ساتھ ماڈرن ،ہیومن رایٹس کا وومن امپاور ڈسکورس ڈراموں کی طاقتور نسائی کرداروں سے چھلکتا محسوس کیا جاسکتا ہے بلکہ پورا انسانی حقوق کا چارٹر،حقوق النسا کی بازگشت اصلی سیتا سے سیتا و گیتا تک نظر آتی ہے یہ امر صاف نظر آتا ہے کہ خواتین ناظرین کے لئے  اور انکی دل لگی کے لئے باقاعدہ ہدایتیں دے کر طاقتور مکالمے تیار کروائے گئے ہیں۔

رام راماین میں عورت حقوق پر لیکچر دیتا نظر آتا ہے تو سیتا راون کو خواتین کی بابت لمبا چوڑا لیکچر دیتی نظر آتی ہے،پاکستان و بھارت میں مظاہروں ،مارچوں میں فیض و جالب کی نظمیں دیکھیں گے اور دستور خواتین کے لبوں سے نکلتے نظر آنا عام بات ہوچکی ہے۔

ادب میں پراگریسو مصنفین کی جس کھیپ نے ۱۹۳۰ سے اب تک سفر طے کیا  ہےانکے گیہرے اثرات،سابقہ مارکسیوں کے شانہ بشانہ عورت مارچ میں نمودار ہوتے نظر آتے ہیں،عورت مارچ والیوں کا یہ ایمان لگتا ہے کہ مرد کو جنسی تشفی کے لئے انکی سخت ضرورت ہے،مگر آج کی عورت انکے مطابق اتنی باشعور ہوچکی ہے کہ اپنے مسایل و وسائل کو بخوبی پہچان سکتی ہے،اور مرد کو یہ باور کراسکتی ہے کہ صدیوں سے ظالم وہی رہا ہے اور مظلوم  صرف عورت رہی ہے،اور مرد کو اگر اس سے جنسی تشفی چاہے نکاح کی صورت میں پوری کرنی ہو،یا زنا بلرضا  کی صورت میں کرنے ہو وہ جان لے کہ اب اس صدی میں اصل حاوی کردار عورت کا ہونا چاہئے،عورت اسکو بھیک میں اپنا تعلق جبھی عطا کرنے پر راضی ہوگی کہ وہ اسے اپنے مساوی جانے،اسے ہر طرح کی آزادی عطا کرنے میں رکاوٹ نہیں ڈالے،ساتھ ساتھ وہ یہ بھی مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں کہ وہ جسمانی و طبعی بنیادوں سے بھی  مرد جتنی ہی طاقتور ہیں  بلکہ مرد سے زیادہ جسمانی ہیت میں طاقتور ہیں،کیونکہ مرد کے مد مقابل وہ بچہ دانی میں اسکے پیدا کردہ حمل کو لیکر پھرتی ہیں لہذا مرد کو اسکا احترام مرد کے مقابل ہر روپ میں کرنا چاہئے۔

 ہم جانچتے ہیں کہ اس  پوری نسائی بحث کے زیادہ تر متنازعہ نعرے حقوقِ نسا  کی بابت کم اور جنس کی بابت زیادہ اظہار کرتے نظر آتے ہیں،جن سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مرد نا کسی عورت کا بھائی ہے اور نا بیٹا،بھانجا ،بھتیجا،چچا یا ماموں بلکہ یہ انکی نگاہ میں یہ ظالم ،جابر بد کردار، صدیوں سے استحصال کرنے والا سر تا پا بس ظالم و جابر زندہ وجود  مرد ہی ہے۔

عورت مارچ سمیت اس بحث کے تنقیدی رخ  میں کہیں بھی مرد کی تربیت میں عورت کے کردار ،بطور ماں ،بھن اس پر اسکے اثرات اور انکے ضمن میں مرد کے دیگر خواتین سے رویہ و سلوک کو سرے سے بحث کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا ہے ،جس کی رو سے بیٹی باپ کی بیٹی اور بھائی کی بھن بعد میں ہے اور اول عورت اور مظلوم عورت پہلے ہے باپ اول ظالم ہے بعد میں باپ ہے۔

اس قسم کے روئے درحقیقت ایک ایسی دوغلی ثقافت کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں جو خود کی شناخت سے تو اجنبیت ظاہر کررہی ہے مگر دوسری تہذیب کے ساتھ فکری خلط ملط کے لئے تیار نظر آرہی ہے،یوں مغرب مشرق کے جسد میں پنھاں ہوکر مشرقی وجود کو بتدریج ختم کرنے کا سبب بن رہا ہے،یہ ذہنی غلامی سے جسدی غلامی کے طرف ایک خاص سوچ و فکر ،مفادات کے حامل طبقے کی مایہ قلبی ہے ،جس میں حقیقت کی ایسی ازسرنو تمعیر پیش نظر ہے جسکے طفیل مشرق کو مغرب کے ایسے طفلیہ کا کردار ادا کرنا ہے جو مغربی اقدار کے درون ریاست  فروغ کے لئے خود کے  ذاتی وجود ،خود کے ذاتی تشخص ،اور خود کی آبائی ثقافت سے لیکر اپنے کل ظاہری و باطنی وجود  تک سے بھی بغاوت کرسکتا ہے،اور اس وجود کے پیش نظر حقیقت میں ایک ایسی مسلسل امتداد پذیر اضافی اخلاقیت کی تعمیر کرنا  ہی اصل مقصد ہے جو خیر و شر کے مشرقی تصورات کو ملیامیٹ کرنے کے لئے اپنا تن،من دھن تک قربان کرسکنا عبادت تصور کرتا ہے۔

اس ذمن میں صنفیت کو ایک خاص جگہ دینے کی گذرشتہ سو سالوں سے ایک طاقتور کوشش جاری و ساری ہے جو بلآخر خاندانی رشتوں کے باہمی تعلقات کا خاتمہ چاہتا ہے ،انکے باہمی حقوق و فرایض اور قربانیوں کے فلسفے کو مطلب پرستی،جنسیت ،اور خواہش نفس کی طرف موڑ کر محبت و الفت و اعتماد کو رقابت و عناد میں بدل سکتا ہے۔

جیسا کہ ایک پلے کارڈ میں ہم عورت مارچ کے دوران ایک لڑکی کو یہ مطالبہ کرتے دیکھتے ہیں کہ :میری شادی کی نہیں میری آزادی کی فکر کرو۔یہ جملہ ایک ایسے مطالبہ کا اظہاریہ ہے جسکی رو سے لڑکی اہل خانہ و خاندان کی اسکی زندگی میں مداخلت کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔لڑکی کا مدعا یہ ذہنیت قایم کرتا دکھتا ہے کہ تم نے مجھے پیدا تو  کردیا ہے،پڑھا لکھا کر بڑھا کردیا ہے،اب مجھے اپنی قید سے  بھی کامل آزاد کردو،میری حیات میں مداخلت و تسلط  ختم کردو ، اپنے اور میرے مابین یہ ان دیکھے رشتے ناطوں کے بندھن ڈھیلے کردو اور مجھے  ایسی آزادی دو جسکی رو سے میں اپنی مرضی سے اپنے لئے لامحدود لذت،کام،آسائیش کا انتظام کرسکوں، چونکہ میری زندگی میری مرضی ہے اور  میں جس سے چاہے شادی کروں،یا نا کرو،مرد سے شادی کروں یا بوڑھے سے نکاح کروں،یا پھر کسی سے نکاح کے بغیر تعلق استوار کروں یہ سب میرے رد و انتخاب کے دم پر ہوگا، ناکہ کہ کسی باپ،بھائی،چچا،دادا کی مرضی سے ممکن ہوگا، وہ وقت بیت گئے نسائی جھالت کے دوران تو ایسا ممکن تھا مگر ناسائی روشن خیالی کی ترویج و فروغ کے بعد میں اب  چاہوں تو کسی ہم جنس لڑکی سے  بھی تعلق استوار کروسکتی ہوں، اور  میرے گھر والوں کا اس تعلق و معاملہ  سے کچھ  لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ،اور جب گھر والوں ،ماں باپ،بھن،بھائی تک کا حق میں نے اپنی آزادی میں سے منفی کردیا ہے تو سمجھو کہ معاشرہ و ریاست بھی خود بخود اس بحث سے نفی ہوگئے ہیں، چونکہ میں ہوں جبھی میں آذاد ہوں اور میری آزادی پر کوئی مذہب ،خدا،نبی،بشر ،مسٹر و مولوی قدغن عاید نہیں کرسکتا ہے،ڈھکے چھپے انداز میں زبان سے کہے بغیر اس ڈسکورس کی جڑوں میں یہی بیانیہ کارفرما ہے:جسے میں فلسفیانہ اصطلاح میں نسائی خودی کی دریافت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

 

 دوسری جدت طرازیاں دکھانے والوں کے نقش قدم پر چلتی ایک عورت مارچ میں شریک موصوفہ کو ہم بخوبی یہ کہتے ہوئے بلکہ  سابقہ موقف صراحتسے عیاں کرتے ہوئے جانچ سکتے ہیں کہ:

 ہمیں رشتے نہیں حقوق چاہئے،یعنی کہ گھر والوں کو ہماری جوانی کے ساتھ،ہماری تعلیم کے ساتھ ہمارے رشتے کی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمیں صرف آزادی کا اظہار کرنے والے حقوق دے دو تو خوب ہوگا، ،رشتہ ہم خود ڈھونڈھ لینگے،یہ انسان کی آزادی بلخصوص صنف نازک کی مرد سے آزادی کی طرف اشارہ  فراہم کرتا عملی  مطالبہ ہے،مردانہ جیون ساتھی اب جدید زنانہ صنفیت کی رو سے بس  ایک ثانوی معاملہ بن کر رہ گیا ہے ۔ جدید نسائیت کی رو سے اصل معاملہ عورت کے ذاتی تشخص و وقار کا ہے،ایک ایسے وقار کا ہے جس میں آزادی کے ساتھ  ساتھ  عورت فرانسیسی انقلابِ آزادی سے پیدا شدہ مساوات کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے،مگر اسکے لئے تن من دھن کی جگہ بس نعرے بازی،بیان بازی،ٹاک شو تک قربانیاں دکھاتی ملتی ہے۔

مگر  یہ سب ساتھ میں مرد سے مساوی ہونے کے دعوے کے ساتھ ساتھ دوسری طرف جسمانی مساوات سے یوٹرن لیکر پھر عزت کے مطالبہ کی طرف رجعت کرتی ہیں،لوہا گرم ہے ایک ہتھوڑی اور ماردو  ،جہاں مساوات  کچھ دیر کے لئے دوران مطالبہ ہوا میں معلق کرکے جنس کے غلام  مرد پر یہ قدغن عاید کرتی ہے کہ اسکی بطور عورت خاص عزت کو بھی برقرار رکھا جائے ،مگر نتیجتاً خود مرد کی عزت ،وقار،برتری کو کامل طور پر مسترد کرتی دکھتی ہے،اور ساتھ میں اسے یہ بھی  دھمکی دیتی ہے اگر تم  نہیں مانے تو ہم تم سے نا تعلق استوار کرینگی نا تمہیں قریب آنے دینگیں ہمارا  کوئی اور متبادل ڈھونڈھ لو وہ دن گئے جب تم ہم سے بچہ پیدا کرواتے تھے،اب ہماری مرضی پر موقوف ہے بچے پیدا کریں یا نا کریں،سرمایہ داری نے اسکا بھی ایک حل جنسی گڑیاوں کی صورت میں مرد کو یورپ میں فراہم کردیا ہے،مشرق اس سے ابھی صحیح طرح آشنا نہیں ہے۔

  عورت کے اگر اس موقف کو دیکھا جائے کہ وہ مرد کو شھوت کا نشانہ نہیں بنانا چاہتی ہے اور نا اسکے نازیبا کپڑے  پہننے کے پیچھے  اسکی کوئی بد نیتی کارفرما  ہے بلکہ بد نیتی فلنفسی  مرد کے ذہن کی پیداوار ہے ، وہ بیچاری تو بس کبھی لباس یا اسکے کسی جز و کل کو چھوٹا کرکے پہنتی ہے تاکہ کوئی جسمانی حدود ، اربعہ نکھر کر سامنے آئے ،یا شریف عورت کی طرح اسے چھپا دیتی ہے یہ اسکا بس حسن انتخاب ہے،مردوں کے ذہن میں آتے خیال بس مردانہ توجہ کا نتیجہ و کمال ہے،یعنی محتمہ کوئی بھ کام حسن نیت سے کریں اسکے سرے سے سائیڈ افیکٹ سرے سے ان کی رو سے وقع پذیر ہوتے ہی نہیں ہیں؟۔

اب اس کل بحث میں یہ دیکھا جانا چاہئے کہ کسی وجود کا چھوٹا ہونا یا بڑا ہونا فی النفسی حقیقی شہ ہے یا پھر سوچ و نظر کا دھوکہ یا التباس ہے؟،ظاہر ہے اگر کوئی فرد ،مرد و عورت قمیض ہو یا شلوار،پینٹ ہو یا شرٹ سینے والے یا بنانے والے سے اپنے جس مطالبے کی رو سے بنوائیگا وہ درزی اسکے بیان کردہ تفصیل کا خاکہ اپنے ذہن میں رکھ کر ویسا ہی بنائیگا یا بیچے گا،پہننے والے کا یہ لباسی مطالبہ بھلے اسکی نگاہ میں کوئی فیشن ہو یا نا ہو مگر اتنا طے ہے کہ ان سب کے پس پشت اسکے ذوق ،میلان،اظہار ،نمودِ خودی و نیت جیسے عوامل ضرور کارفرما ہونگے ، لہذا نا درذی خالق ہے اور نا درزی نے اس جنسی اشتھا  کی افروزدگی میں  کئی ذاتی نیتی یا موضوعی کردار ادا کیا ہوتا ہے، بلکہ یہ اس عورت کی   ذہنی موضوعیت اور شہوت  تخلیق کرنے والی کی نیت کا قصور ہوتا ہے جبکہ  درزی تو بس روزی کمانے کے لئے اپنی خدمات بطور آلہ کار پیش کررہا تھا،یا بس  اسکا جز وقتی ملازم تھا  یا پھر ایک مقصد میں معاون تھا مطلب حقیقت میں وہ سلوائی گئی  قمیص یا لباس کا کوئی بھی واضح کیا گیا جز   بعد از سلائی یا تو چھوٹا ہو گا یا پھر بڑٰا سلے گا،چھوٹی قمیضیں جانی مانی بات ہے کہ جسمانی ہیتوں کو نسبتاً زیادہ واضح و اجاگر کرتی ہیں،بلخصوص عورت کے جسمانی حدود و اربع ،مد و جزر ،اتار چڑھاو اس میں کہیں زیادہ ن واضح ہوتے ہیں،اور عورت  نے یہ سب کھیل تماشہ خود کو دکھانے کے لئے نہیں کھیلا ہوتا ہے،اگر ایسا ہے جیسا وہ کہتی ہے تو یہ کام تو وہ خود کو خوش کرنے کے لئے بند کمرے میں شیشہ کے سامنے خود کو کھڑا کرکے سرانجام دے سکتی ہے،یہ سب فیشن،ندرت،چھوٹا بڑا کرنا اسکی خودنمائی بھی ہے اور دوسروں کی نگاہ میں خود کو نمایاں ظاہر کرنا بھی ہے،وہ ماڈرن ہوکر بھلے دنیا کے سامنے کتنا انکار کرے مگر درون خانہ یہی خواہش کارفرما ہوتی ہے۔

اب لازمی بات ہے کہ ان امور سے مرد کی جنسی اشتھا و شہوتوں میں بھڑکاو پیدا ہوتا ہے، یہ سمجھیں کہ پانی میں آگ لگانے والا معاملہ ہوتا ہے،کسی پر سکون تالاب میں پتھر مارنا ہوتا ہے،بلیک ہول میں کسی وجود کا گر اپنی ہستی نیست کرکے ،خود سے بے گانہ ہونا ہوتا ہے، نیکی و بدی مابین فرق کو پاٹنے کی جگہ انھیں ابھارنا ہوتا ہے،جس طرح جراثیم،وائرس اور بیکٹیریاز سے بچنا ہی عمدہ تحفظ ہوتا ہے اسی طرح جنسی اشتھا میں اضافہ روکنے کے لئے اعضا کو عیاں کرنے سے روکنا ایک حکمت و عمل بلیغ ہے ، یہ سامنے والے  کو بد طریقہ سے بدی کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے،یہ عذر کہ نیت اچھی ہو تواور عشق محمدی کا پٹہ ہو تو دوپٹہ فضول ہے ایسا ہے جیسے عیسی ؑ کا ابن اللہ ماننا بس مجازی معنی کا حامل ہے حقیقی معنی و مفہوم کا مالک نہیں ہے،،سمجھیں کہ شیطان کہہ رہا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیاہے  میں نے رب تیری اجازت سے اسے ترغیب دی ،یہ اسکا قصور تھا کہ پھنس گیا، نبی اکرم نے یہ فرمایا ہے کہ جھان مرد و عورت اکیلے ہوں وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے،ایعنی کہہ سکتے ہیں کہ  پھر وہاں مرد و عورت کے اعمال بھی شیطان ہوجاتے ہیں لہذا عشق محمدی میں ڈھکنے چھپنے کی سنت ِ حجاب بھی شامل ہے،چناچہ  جنس کو ظاہر کرکے دانہ ڈال کر مظلوم بننا ایسا ہے کہ بھوکے غریب کے سامنے روٹی کھانا اور اسکو ایک لقمہ بھی نہیں دینا۔

 جبھی شریعت و معاشرہ انکے ڈھاکنے اور چھپانے کا مطالبہ کرتے ہیں،اب کیا عورت یہ حلیہ صرف خود کو خوش کرنے کے لئے اختیار کرتی ہے یا خود کو نمایاں کرنے کے لئے اختیار کرتی ہے،ظاہر ہے اسکی ذاتی نگاہ میں اس قسم کے حلیہ کی ایک متاثر کن ، داخلی ،جذباتی ،حسی افادیت ہوتی ہے اور وہ اسکی خود نمائی ہے،اگر وہ کہے کہ میں خود کو دکھانے اور خوش کرنے کے لئے ایسا کرتی ہون تو غریب کو بھی پھر امیر کی طرف دیکھ کر جلنا نہیں چاہئے،کیونکہ یہ امیر کی مرضی ہے کہ وہ  جتنی چاہے اپنے مرتبہ و ثروت کی بڑھوتری کے سبب جیسی چاہے  خودنمائی کرتا پھرے، جبکہ صاحب ثروت معاشرے کی نگاہ  خالی پیٹ ،انصاف سے محروم غریب کا سرمایہ دار کے خلاف انقلاب لانا،مزدور کی بدمعاشی سمجھی جائیگی  گی ۔

کیونکہ نگاہ و نظر غریب کے ساتھ  ساتھ امیر کی بھی وابستہ ہے ،لہذا منطقی طور پر امیر کی ثروت سے اسے اس لئے بھی مشتعل نہیں  ہونا چاہئے کیونکہ امیر نے یہ حلیہ خود کو دکھانے اور خوش ہونے کے لئے اختیار کیا ہے،جبھی غریب کو اسکے خلاف انقلاب نہیں لانا چاہئے ، بلکہ انکے مطابق خود امیر بنکر ایسا حلمیہ اپنانا چاہے؟عین ایسے ہی اگر کوئی عورت ننگی جاری ہو اور مرد اسے دیکھ رہا ہو تو وہ اسے  نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ وہ عورت خود کو اسے دکھارہی اور خود کو اول خوش کرہی ہے،

 اور مابعد الطبیعاتی غیر اقداری موقف کی رو سے مرد کو اضافی طور پر وہ راستے میں دکھ گئی ۔کیونکہ اسکی کوئی ضامنت نہیں ہے کہ ایک مرد یا سارے مرد کسی  غیر اخلاقی کپڑے میں پھرنے والی عورت کے لئے باہر نکلے تھے ،جبھی  حقیقت یہ ہے کہ اس صورتحال میں عموماً  مرد کی نگاہ چھوٹی نہیں ہے بلکہ عورت کی قمیض حقیقتاً چھوٹٰی ہوتی ہے،جبھی حقیقت کا اظہار کرنا انکی آبا تہذیب مغرب کی نگاہ میں نیکی ہے ،جیسے پورن فلم  کی ہیروین خود کے لئے ننگی نہیں ہوئی ہوتی ہے بلکہ کمائی کے لئے ننگی ہوکر جنسی فعل کررہی  ہوتی ہے،ایسے اگر خود کو دکھانا اصل  مقصود مانا جائے تو یہ مطلب گھر میں خالی کمرے میں آئینے کے سامنے بھی پورا ہوسکتا ہے،جیسا کہ سابقہ سطور میں یہ بات بیان کی گئی تھی یہاں اسکا اعادہ کردیا گیا ہے، بلکہ زیادہ اچھی طرح پورا سکتا ہے،اس تناظر میں گھر میں چھوٹی قمیض یا گردن تک چھوٹی قمیص پھن کر بھی دل اور زیادہ خوش کیا جاسکتا ہے۔

مگر اس حادثہ قصدی میں عورت چھوٹی قمیص والی اس منظریت و افادیت میں دوسروں کو بھی شریکِ ستایش  کرنا چاہتی ہے،جبھی نگاہ کا چھوٹا پن ہونا  حقیقی چھوٹی قمیض کی حقیقت سے کنارہ کشی نہیں کرسکتی ہے۔اگر  یہ کہا جائے  کہ  عورت کا مرد کو دکھانا  اصل مقصودِ نظر ہی نہیں تھا تو پھر وہ  سمجھوعورت یا تو عورت کو جنسی طور پر ترغیب دینے کی حرکت سرانجام دے رہی ہے،یا پھر اس سے ستائیش کی طالب ہے  یا پھر ضرور اس پر اپنی فضلیت و برتری کے قایم کرنے کی طلب گار ہے،صورت معاملہ کی کوئی بھی ہو ،نگاہ چھوٹی یا بڑی ہو مگر اتنا طے ہے کہ قمیض کا چھوٹا ہونا ہی سچ اور منفی سچ و سوچ کا مبدا  ہے۔

 اور عورت کی نیت  ان سرگرمیوں میں کسی بھی تناظر میں عمدہ و مفید نہیں ہے، نا خود اسکے لئے اور نا دوسروں کے لئے ،اب اسکو معاشرہ برا کہے یا ،جنسی بھیڑیے اس پر حملہ کریں،یا پھر اس پر جملے کسیں یہ سب اسکے فعل کے منفی اثرات ہیں جنھیں جنکا خمیازہ اسکو بھگتنا پڑسکتا ہے،جیسے وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ قمیض نہیں نگاہ چھوٹی ہے یعنی تمہاری سوچ گندی ہے ویسے سامنے والا اسکے تصور حیات و اور تصور خیر کے سامنے اپنے تصور خیر کو لے کر اپنی مرضی وآزادی کا راگ الاپ سکتا ہے ،ایسا کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ چھوٹی سوچ والا ہی بدی کا محور ہو اور بدی کا تاثر پیدا کرنے والی اپنے اعمال کو ذاتی خیر کہہ کر بچ نہیں سکتی ہے،جبھی یہ جملہ جواب دعوی ضرور ہے مگر معقولی دعوی ہر گز نہیں ہے،ہر عمل کا ایک برابر رد عمل ہمیشہ متوقع رہتا ہے،لہذا جب کسی  کی سوچ و نگاہ کو چھوٹا کہا  ہےتو خود کو بڑا و خیر پر ہونا بھی جواب میں ثابت کرنا جملہ اختراع کرنے والے پر فرض بنتا ہے۔

یہ جملہ عین اس سوچ کی بھی شرعی حیثیت پر طمانچہ ہے جو کہتا ہے جس نے عشق رسول کا دوپٹہ پہنا ہو اسکو دوپٹے کی کیا ضرورت ہے،یہ کسی شیطان کے چیلے کا مذہب کے نام پر جعلی  خود ساختہ جواز ہے اول تو عشق رسول کی انتہا پر سنت کی علامت اگر داڑھی  مرد کے ساتھ وابستہ ہے تو عین اسکے مد مقابل  اسی طرح ،جلباب،خمر ،دوپٹہ ،چادر،اور حجاب کا استعمال کرنا عورت کو اللہ و رسول کا حکم ہے۔

حکم عشق پر مقدم ہوتا ہے اور اطاعت کا طلبگار ہوتا ہے اور انکار اطاعت عاشق کی معشوق سے عدم عشقیت و نافرمانی کا ثبوت ہوتا ہے،جبھی تمہارا عشق رسول کا  دعوی جھوٹا ثابت ہوا، جس رسول سے تم عشق کے دعوے دار ہو وہ  کیا تمہاری نگاہ میں  کوئی شرعی  و حکمی رسول نہیں ہے بلکہ کیا تمہارے اذہان میں موجود تمہارا اختراع کردہ رسول ہے،کیونکہ جس رسول کی ہماری اسلامی  شریعت بات کرتی ہے اسکی بابت قران کہتا ہے نبی جو دیں لے لو اور جس سے روکے رک جاو اور یہ امر مسلم ہے کہ اسلام نے عورت کو خود ڈھکنے و چھپانے کا حکم دیا ہے،جبھی مردود کا دعوی فضول ثابت ہوا ،لہذا جو کوئی نبی عربی ،رسول اکرم محمدؐ کے عشق کا قلادہ پھن کر انکے در کی غلامی کرتا ہے اس پر حجاب اور دوپٹہ کی تعظیم کرنا فرض ہے۔

اس مارچ میں  لچج نے جرات سے شکل دکھا دکھا کر نعرے و مطالبے پیش کئے مگر کچھ نے چھرے چھپا کر نعرے مارے جیسے ایک موصوفہ ماسک سے چھرہ چھپا کر یہ پلے کارڈ لے کر کھڑی تصویر بنواتی نظر آئیں،کہ میں اکیلی ہی اچھی خیر اس تصویر میں انکے اکیلے پن سے ہمارا کیا لینا دینا مگر برا ہو مارچ اور انکی ٹارچ کا جس نے ہماری نگاہ میں انکا اکیلا پن تو نہیں مگر انکا تارک الدنیا  مطالبہ قابل توجہ ٹھرایا،ویسے بھی بات سے بات نکلتی ہے، موصوفہ کی نسبتاً معتدل ظاہری فحاشی بھی یقین جانیں کہ سابقہ نعروں کا اصلاح شدہ نمونہ ہے جو مرد سے کراہت کا آئینہ دار ہے ،یعنی وہ یہ موقف عیاں کرتی دکھتی ہیں کہ جو شادی میری آزادی فکر و عمل کے خلاف ہو اس سے میں اکیلی غیر شادی شدہ کنواری  ہی صحیح  ہوں اور ذرا نگاہ مارچی موقف کے مطابق چھوٹا کرکے دیکھیں تو اس میں جنسی خود انحصاری سے لیکر ہم جنس پرستی تک کی چھایا ابھرتی نظر آتی ہے،قریباً سارے ہی پلے کارڈ و موقف درون خانہ جنسی موضوع اور آزادی پر اپنی توجہ مرکوز کرتے نظر آتے ہیں،مطلب چچا فرائیڈ ہوتے تو کہتے جنسی دبی ہوئی جبلتیں،ماحول  موافق ملنے پر ظاہر ہوگئیں،ایڈیپس کمپلیکشن،ہم جنس پرستی میں بدل گیا ہے،اب لڑکی کی جبلت ابا کی طرف جھکاو سے دوست کی طرف جھکاو کی حامل ہوگئی ہے،،خیر مغربی فکر و ماحول میں ایسی علمی فلسفیانہ بدمعاشیاں ملنا عام بات ہے۔

ایک کارڈ کہتا ہے کہ آج واقعی ماں اور بھن ایک ہو رہی ہیں، شاید یہاں فرائیڈ اکہتا کہ جبلتی انحراف اور کج رویاں کی بدولت نئی تہذیبی مسایل نے اب جنسی میلان ِ طبع باپ سے ماں اور وہاں سے دوست کی طرف  کردیا ہے ،اب کوئی ان سے پوچھیں کون سی ماں و بھن؟ ،اس میں خاتون بیٹی گول کر گئیں یعنی وہ خود سرے سے خود کسی باپ  کی  بیٹی نہیں تھیں جو انھیں اس بحث سے صرف عورت چھلکتی نظر آئی یا انکی نگاہ میں ماں اور بھن  کے الفاظ کسی خاص نقطہ نظر کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں،انکے مطابق شادی وہ بطور بیٹی اپنے فرایض پورا کرنے سے زیادہ نظریاتی ماں بھن زیادہ اہم ہیں۔

اور یہ سب  کس طرح ایک ہوگئیں ہیں ،اور کس مسلے پر ایک ہوگئیں ہیں  ،یہ  ابھی بحرحال طے کرنا باقی ہے ،اگر بڑی شفیق  بھن اور اخلاقی رہنما ماں کی بابت بات ہوری  ہوتی تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا یہاں ایک خاص نسائیت ذدہ ماں اور اسکی آزاد خیال بیٹی زیر بحث ہیں جو اس لڑکی کی بڑی بھن کے طور پر اسکی آزاد طبعی کو موید معاون بنتی نظر آتی ہے،اور اس نے حقیقت میں یا تو اپنی ہم خیال ماں و بھن کی طرف اشارہ کیا ہوگا یا پھر ہم خیال عورت مارچی برادری کی ماں بھن کا ذکر کیا ہوگا،مشرقی  شوہر کی اطاعت گزار،عزت کرنے والی بیوی ، فرمانبردار بیٹی اور بھن کی نمایندگی یہ عورت مارچ والیاں شاید  نہیں کرتی ہیں اور نا وہ انکے موقف میں انکے ساتھ ہیں کیونکہ مرد و عورت کے فطری ،سماجی،اخلاقی اور مذہبی اقدار کی تعمیر ہماری جس  مشرقی عورت نے بطور ماں،نانی،دادی،پھوپھی،خالہ کی ہے،وہ اپنے منتقل کردہ صدیوں کے اقدار کو یوں گنتی کی چند اقدار گریز عورتوں کے  ہاتھوں میں نہیں دے سکتی ہے جو ان سے ہر لحاظ سے الگ موقف،کردار،حیات اور سماجی رتبے میں الگ ہوتی ہیں۔

 لہذا اس مقدمہ کی پوری بحث سے  یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جن لبرل لوگوں نے پاکستان میں نسائیت،آزاد خیالی،سیکولرازم اور انسانی حقوق کی علم بردارئیت کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے وہ نا تو پاکستانی ریاست اور معاشرے کے حقایق سے آگاہ ہیں اور نا ہی مغربی اقدار و بنیاد سے اچھی طرح آگاہ ہیں، اور وہ نا ہی پاکستانی معاشرے کے کسی بڑے گروہ یا عامتہ الناس کی زبان میں باتیں کرتے ہیں اور ناہی انکی نمایندگی کرتے ہیں ، نا ہی انکی علمی و فکری مسایل کے لئے کوئی فکری کام کرسکتے ہیں،اتنا  ساتھ میں  واضح ہے کہ انکے پاس عوامی مسائل کا  کوئی شافی مستقل ،فوری حل بھی نہیں ہے اور وہ جو کچھ  بھی تھوڑے کام دکھا پاتے ہیں وہ سب بیرونی، امداد ،حمایت اور اندرونی ریاستی مشینری  کی درپردہ انکی حمایت کے سبب ممکن ہوتا ہے ، ایسا دیکھا گیا ہے کہ کچھ معاملات میں اسٹیبلیشمنٹ ان کے مخالف بھی نظر آتی ہے جیسے گمشدہ لوگوں کے مسلے  پر ،قوم پرستوں اور لبرلز کا فطری اتحاد  وغیرہ  مگر اسکے باوجود یہی قوم پرست لبرلز کہنے میں کچھ ہیں اور کرنے میں کچھ  نظر آتےہیں  اگر انکا مشاہدۃ النفس کیا جائے تو بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ یہ جو بھی اعمال و وظایف سرانجام دیتے ہیں ان  میں زیادہ تر درون خانہ  انکے  کچھ نا کچھ ذاتی مفادات نظریاتی مفادات کے مقابل کارفرما ہوتے ہیں۔

اور جن انسانی ،معاشی،اور فکری سرچشموں سے یہ اپنی بنیاد حاصل کرتے ہیں وہ انکو اپنا زرخرید غلام بنا کر مغرب کی سطحی تعلیم سے انھیں اتنا ہی روشناس کرواتے ہیں جتنا مغربی ریاستی ایجنڈے کی نگاہ میں ضروری ہوتا ہے۔

مغرب ،اسکا نصاب اور اسکے اقدار ہم دیکھتے ہیں کہ خود مغرب میں بھی کبھی اتنے مطلق،منطقی اور معیاری نہیں گردانے   گئے ہیں جتنا انکے مشرقی مقلدین انکو خود پر مطلق طور پر خطا سے مبرا جان کر نافذ کرتے ہیں،یہ  حضرات دراصل ایک ایسی یوٹوپین رومانیت زدہ  برادری کے قیام کے خواہش مند نظر آتے  ہیں جو انکو مطلق ،بے لگام ،کسی حد سے ماورا خود کفیل،اور فردی خواہشات کے عین مطابق آزادی دے سکے ، مگریہ خود  کسی بیرونی فکر فرد و اجتماع کو  اپنے  پر کسی قسم کی تنقید کرنے کے لایق نہیں سمجھتے ہیں بلکہ  خود کو دوسروں کی تنقید سے مامون جانکر سہولیات فراہم کرتے رہتے ہیں۔

 انکا مطالبہ ہے کہ اس مطلق آزادی کا اطلاق اول عورتوں پر کیا جائے پھر ان کے بعد  عورتوں کے غلام مغرب ذدہ مردوں پر کیا جائے جنکی منافقت انکو دین اسلام کا ظاہری پیروکار تو ظاہر کرواتے ہیں مگر،اصول و فروع میں وہ کامل طور یا تو فیڈرسلسٹ پیپرز کا پیروکار ہوتا ہے یا پھر وہ انسانی حقوق کے چارٹر کو جدید صدی کا قران و بایبل تسلیم کرتا ہے،اور مزے کی بات انکی ننانوے فیصد اشرافیہ اور انکے پیروکار ان ماخذات سے بھی  سرے سے واقف ہی نہیں ہوتے ہیں،یہ  دراصل ایک نئی خود ساختہ روشن خیال  جامد تقلید کے عادی  ہوتےہیں جس میں روشن خیالی،فکری ثقافتی تنوع کو نیکی تصور کیا جاتا ہے مگر یہ ان مباحث کی حقیقی تاریخ و اساس اور انکے لئے مطلوب امور سے واضح طور پر نابلد نظر آتے ہیں۔

اسکی قسم کے گروہ کی ظاہری اسلام بازی جو اگر چہ اسلامی شریعت سے کوسوں دور ہوتی ہے  اسے کفر سازی کے پروپگینڈے کے ذریعے ایک تو مرتد کہلانے سے بچاتی ہے دوسرا اسکو مسلم برادری کا رکن ہونے کے فواید  جیسے نکاح سے موت تک فراہم کرتی ہے،اگر انکا درون خانہ نفسی مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ  کسی قسم کا اقداری نظم انکی نظر میں چاہے وہ معاشرتی ہوں یا ریاستی یا پھر  مذہبی  نوعیت کے حامل ہوں انکے نزدیک ثانوی اہمیت کے حامل دکھتے ہیں،یہ اسی ملکی ریاستی اصول کو جایز تصور کرتے ہیں جو انکے تصور زندگی سے مطابقت رکھتے ہوں ورنا وہ بھی انکے نزدیک مغربی تصور انسانیت اور انکے حقوق کے منافی گردانےجائینگے،انکے نزدیک ہر وہ فعل جو انکی آزادی سے متعلقہ مختلیف رویوں کو کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ اور قدغن کا شکار بناتا ہے وہ جابر،قاہر آمر  کا فعل ہوتا ہے چاہے وہ بھلے کتنی بڑی جمہوری جماعت کے ذریعے انتخابات میں سامنے آیا ہو  وہ انکے ہاں بس ظالم ہے، ظالم ہے، ظالم ہے  اب ایسے میں آمرانہ طرز حکومت ہو یا کوئی اور قسم  کی حکومت ہو اسکی دال انکے یہاں کہاں گل سکتی ہے، اقدار کی قدر و افادیت سمجھیں انکے ہاں ذاتی اور انفرادی نوعیت کا معاملہ  جانا جاتا ہے،یعنی یہ غیر اقداری تصورات کے ایسے مقلد ہیں جو انکی قایم کردہ اقدار کے سوا ہر قسم کی اقدار کو منطقی و غیر انسانی تصور کرتے ہیں۔

یہ تو تھااقدار کا معاملہ اب جہاں تک تعلق ہے غیرت مندیت یا شخصیاتی خودی و شناخت کا تو یہ اپنی پیدائشی خاندانی مشرقی اسلامی خودی کو آہستہ آہستہ مٹا کر لبرل مغربی،سیکولر میلان کی حامل خودی سے بدلنے کی ایمانیات پر یقین رکھتے ہیں،جسکا یہ وقتاً فوقتاً مظاہرے کرتے رہتے ہیں یقین جانیں کہ  انکے پاس اپنا  کچھ  بھی  نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر شہ یہ کسی غیر اقداری سرچشمے سے اخذ کرتے ہیں اور جس شہ کو یہ منفرد ،یونیک اور الگ جان کر اپناتے ہیں ،ان امور میں یہ کچھ منفرد و یکتا روزگار قطعاً نہیں ہوتے ہیں بلکہ  دیگر نوآبادیاتی فکری غلامی کے مقلدین بھی اس امر میں انکے ہم نوالہ و ہم پیالہ  ہوتے ہیں ،ان سب میں جو شہ مشترک ہوتی  ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب ہی اپنے اسلاف کے ماضی،اقدار اور اخلاقیات کو ردکرنے میں اشتراک کرتے نظر آتے  ہیں اور اپنے سابقہ اور موجودہ آقاووں کو اپنا نمونہ عمل گرداننے لگتے ہیں،جسکی علت میں انکی احساس کمتری کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت و اساس کو قبر میں دفنا کر ظاہری چمکتی تہذیب و تمدن کے اقدار کو اپنانا شامل ہوتا ہے،ان میں سے ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو اسلاف کی نفی نہیں کرتا ہے بلکہ عصری خواہش نفسی پر مبنی میلانات ااور احتیاجات کی اساس اپنے اسلاف سے جوڑتا  نظر آتا ہے،انکے مطابق عصری تہذیب کی کامیابی میں ہمارے اسلاف آگے آگے تھے اس ورثہ سے دستبرداری ہماری تباہی،بربادی ،اور زوال کا سبب ہے۔

 لہذا مشرق و مغرب کے مابین فکری بعد دور کر کے فکری خلیج کو فکری پل کی تعمیر  سے پر کرنا ہوگا جسکے لئے سیکولر روشن خیال جدیدیت اہم کردار ادا کرسکتی ہے  ،یوں بحث کے اس  رخ سئ نتیجتاً  ایک ایسا مشرقی انسان نمودار ہوتا ہے جو کئی روپ رکھتا ہے ،جیسے وہ ظاہر میں مشرقی وضع قطع کا بھی دکھ سکتا ہے،مولوی بھی نظر آسکتا ہے اور مسٹر بھی دکھ سکتا ہے ،مگر جیسے ہی کوئی ان سے تبادلہ خیال کریگا تو انکے مقلدین چاہئے حجاب میں ہوں یا نیم برہنہ ہوں ،داڑہی  رکھتے ہوں یا کلین شیو ہوں فکر میں سب ایک  ہی تصویر کا دوسرا رخ  معلوم ہوں گے،جبھی صرف حلیہ سے ہم کسی کی ایمانیات اور مابعد الطبیعات کا اندازہ قایم نہیں کرسکتے ہیں تبادلہ خیال یا نقطہ نظر ہی انکی اصلیت کو باطن سے باہر لا سکتا ہے۔

زنانہ حقوق صرف حقوق کا مطالبہ نہیں ہیں جیسا کہ یہ یورپ و امریکہ کے سلیقہ مند نسا پرستوں کی گفت و شنید سے عیاں نظر آتا ہے،بلکہ یہ مشرق میں  ایک عجیب و غریب شکل میں نمودار ہوا  ہے کہ  جس سےعقل اس چیستان میں پھنس کر رہ جاتی ہے،کہ بھائی بھلا یہ بلا ہے کیا؟،اسکی اساس ایک ہے یا کئی؟،یہ اتنی دوغلیت کی کیوں حامل کیوں ہے؟،اتنا تو میں اوپر بیان کرچکا ہو ں کہ اس مشرقی نسائیت نے اسلام و مشرقی اقدار دونوں کی اقداری روایات کو نا صرف مسترد کردیا ہے،بلکہ یہ خود ایک مشرقی جنسی مذہب بنتا جارہا ہے،جسکی اصولی مبادیات تو مغرب کی ہیں مگر خالصیت اس میں نا مشرقی طرح کی ملتی ہے اور نا مغربی طرز کی پائی جاتی ہے جیسے دوپٹہ ایک نسا پرست کے گلے میں نظر آسکتا ہے مگر اسکا وہاں اسکے رحجان کے برخلاف ہونا، بھلا انکے خود مطابق وہاں اس کا کام کیا ہے اور مقصد کیا ہے؟ کیا  وہ دوپٹہ  والی اسکی قدر کی علت سے آگاہ نہیں ہے،اسکی مشابھت مغربی وی نما  کیوں ہے، ویسے یہ دوپٹہ ایسی فکر کی کسی عورت کے سینہ کو چھپارھا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس پر گردن کی پشت سے ایک رسی کی طرح لٹک رہا ہوتا ہے،قمیض مشرق کی ہو یا مغرب کی جہاں کی بھی ہو  دونوں کی ظاہریت اکثر وہاں  کچھ ایسی فیشن کے نام پر ضم ہوجاتی ہے اور وہاں  قمیض کی علت و تصور اڑن چھو ہونے لگتا ہے۔

دراصل یہ مقامی نسائیت دوغلیتی فکر کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں تشخص و خودی کے فقدان کا بھی شکار ہوچکی ہے،مشرقی اقدار تو خیر یہ رد کرچکی ہے اسلامی  اقدار کو  بھی ڈھکے چھپے الفاظوں میں ظالمانہ گردانا جارہا ہے،مگر ساتھ ساتھ  یہ  سوسری طرف مغربی نسائیت کے خالص تشخص مطالبے،حقیقت و ماہیت کو بھی سمجھنے سے گریز کرتی نظر آتی  ہے،مغربی نسائیت حقوق مانگنے  میں تو یقین رکھتی ہے،مرد کے مساوی آنے کی وہ بھی طلب گار  ہے،مگر مرد کی جنس ،ذات کو دشمن ماننا،اسکے وجود کو کلیتاً رد کردینا وہاں بھت محدود معنی میں اہم جانا جاتا ہے۔

مغرب کی عملی کام کرنے والی حقوق مانگتی ہے تو بات سمجھ آتی ہے آفس سے فلور تک ،وہاں  سے فیکٹری ورکر تک آپکو عورت مغرب میں  روز کی روزی کما کر کھانے کی ضرورت پر اپنی جوانی لٹا رہی ہوتی ہے۔

مشرق میں ظلم کا رونے والی خواتین عموماً اس ظلم اور اس ظالمانہ معاشرے کی رکن نہیں ہوتی ہیں،وہ یا تو  شہری علاقوں کی اشرافیہ کا حصہ ہوتی ہیں یا پھر درمیانہ طبقہ سے انکا تعلق ہوتا ہے،انکے پاس صاف لگتا ہے کہ بولنے چیخنے ،شور مچانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے،ان میں سے زیادہ تر طلاق یافتہ،بیوہ،ازواجی زندگی کی ناکام عورتیں اور انکی تربیت یافتہ جامعات و کالجز کی کم سن طالبات ملتی ہیں۔

یوں یہ مشرقی نسائیت دوغلے بحران کا شکار ہوکر اپنا وجود کھو یٹھتی ہیں  اور ایسا وجود دھار  لیتی ہیں جو نا مشرقی خودی کا مظھر ہوتا ہے اور نا اس مغربی تشخص کا آئینہ دار ہوتا ہے جسکی یہ مداح ہوتی ہیں اور جسکی فکر و تربیت کے نتیجے میں یہ پود نمودار ہوتی ہے،حاصل مطالعہ یہ ہے کہ یہ تحریک مرد بیزار،عنادیت پر استوار نظر آتی ہے ،اور اسکی بنیاد ہی ایک تاریخی ظالم و جابر مرد مخلوق کی نفی ذات پر استوار ہے،اور اگر اس مسلہ کو صحیح طرح سمجھا اور سلجھایا نہیں گیا تو یہ جنسی تصادم دونوں جنسوں کے باہمی  خوشگوار تعلقات پر گھن لگادیگا جسکا نتیجہ بنی نوع انسان میں ایک عظٰیم تباہی کی صورت میں نکلے گا،جو اخلاقیات کا جنازہ نکال دیگا اور  ہمارے پیارے پیارے رشتے ناطوں کو کمزور اور مفاد پرست بناد دیگا،ماں ،باپ،بھن بھائی کے رشتے ناطے  اپنی اہمیت کھونے لگیں گے اور ایثار و قربانی بس داستانوں میں ڈھونڈھنے سے ملے گی،اور دونوں جنسوں میں بڑھتی کراہت یہ تک ممکن ہے کہ  اس  بحث میں کبھی خون خواری کا عنصر بھی اس بحث میں شامل کروادے،اللہ ہمارے رشتے ناطوں اور خاندانی معاشرت کو قایم و دایم رکھے یہی اس عاجز کی دعا ہے۔

اس مجموعے میں نے اسلام پر جدید الخیال،ملحدیت مایل اور مسلم جدت پسندوں کے خواتین سے متعلق اعتراضات کی بابت مختلیف تحریریں جو آن لاین موجود تھیں کو اصلاح،ترمیم،تہذیب،حواشی اور تخریج سے مزین کرکے آپکے سامنے ایک مقدمے کے ساتھ پیش کرہا ہوں۔امید ہے جنکو حق پسند ہے انکے لئے اس میں قابل سکون تحقیق میسر آ پائیگی۔

ڈاکٹر محمد علی جنید۔

 

 

 

 

 

 



[1] Islam and The plight of the Modern men.

[2] سے  جھگڑوں ،لڑائیوں اور تصادم کی ایک اپنی ذاتی مبادیات ہوتی ہے جنکا تعلق واقعے کی اہمیت،گھرائی اور اثر پذیری

ہوتا ہے جسکی بابت قطعیت سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے کہ کونسا پہلو یا امر ان جھگڑوں میں شدت پسندی پیدا کرتا ہے،اتنا طے ہے کہ عصبیت ،ناطے نما رشتے چھوٹے بڑے گروہوں اقلیتوں میں اتحاد و وابستگی کی تدبیر کی حکمت عملی راسخ کردیتے ہیں،ہنگٹنگٹن کے اولین تحقیقی مضمون اور اسکی وسعت شدہ کتاب ِمذکورہ بالا میں بہت حد تک اصطلاح ثقافت کو تہذیب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے،مصنف کبھی ثقافت کو تہذیب کے معنی و مفہوم میں لیتا ہے اور کبھی تہذیب کو اسکے متبادل سیاسی پہلو میں بیان کرتا ہے،مصنف نے ثقافتوں کا ذکر تو کردیا  ہےمگر ثقافت و تہذیب کے باہمی مربوطیت،جز و کل کی تعلق داری ،اسکے اجزائے ترکیبی پر ان مباحث پر محققین کے اختلاف سے بھی پہلو بچا گئے ہیں،وہ شاید یہ بھول گئے ہیں  کہ ثقافت اگر دیہی ،علاقائی،صوبائی نوعیت کی حامل ہو تو اسکی حدود کافی مختصر مگر تیز واقع ہوتی ہیں،انھونے خود مقامی و نسبتا وسعت شدہ افریقی قبایلی جنگوں کی وسعت کی مثال سے وہی کہا جو میں یہاں بیان کر رہا ہوں ،مگر پھر یہ بھی ماننا پڑے گا سیاسی نظریاتی تہذیب کی مظہر ثقافتیں ہی نظریاتی تصادم نما قوت تخیلہ کو وسیلہ بن سکتی ہیں،انھیں ،یورپ و مغرب کی اصطلاحوں پر بھی کافی اعتراض محسوس ہوئے ہیں،خیر جو تہذیبیں تاریخی ،آفاقی ، طور پر وسعت شدہ ہوتی ہیں انکی ثقافتیں ان کی کل میں موجود ہر سیاسی اکائی بھلے وہ ریاست کی صورت میں پائی جاتی  ہو یا ادارے کی صورت میں ملتی  ہو میں سیاسی ومذہبی  تعلق داری دیکھنے کو ملتی ہے،یہودیت ،عیسائیت و اسلام آفاقی،تاریخی،سامی مذاہب ہیں تینوں کی کلاسک و ہیت اولی میں دین و سیاست کا تلازم صاف مل جاتا ہے،یہودیت نے تو اپنے انبیا کرام کو ہی سیاست چلاتے دیکھا تھا،عیسایئوں نے اپنے ماضی کے یہودی ،بنی اسرایئلی تشخص کی نفی میں پال کی پیروی کی تھی، چناچہ انھونے خدا کو خدا کا حصہ اور سیزر کو سیزر کا حصہ دینے میں عافیت سمجھی،پھر کلیسا شروع شروع میں بس ایک تارک نکاح،عبادت گزاروں کی وحدت کا نام تھا جو پونٹفی سچ سے بڑھ کر پوپ تک جا وسیع ہوا تھا، اس کلیسا نے پھر جڑیں مضبوط کرکے سیاست کو بھی کنٹرول کرنا شروع کردیا،مسلمانوں کا تو شروع سے ہی اصول تھا کہ امیر،امام و خلیفہ کی پیروی و نیابت قبول کی جائے دین و سیاست باہمی تعلق سے ساتھ چلیں گے،عثمان ؓ کا یہ قول برے بڑے علما،محققین و مجتہدین صدیوں سے پیش کرتے آئے ہیں کہ اللہ اس دین کو سیاست سے قوت دیتا چلا آرہا ہے۔لہذا اسلام کی ثقافت و تہذیب ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں ،اصول دین کی شکل میں اسکی موضوعیت بھی راسخ طور پر کلی کو نظریاتی طور پر متاثر کرتی چلی آرہی ہے،جبکہ فروع میں کل امت اجتھاد کرتی رہی ہےجس سے اسلام کی قانونی اسپرٹ اکثر اسکی ثقافت و تہذیب کی رہنما بن کر ابھرتی ہے۔معج

[3] غالباً صاحب تحریر کی نگاہ میں قبایل ناہی ایسے منظم ہوتے ہیں جیسی قدیم و جدید ریاستیں رہی ہیں،اور انکی عددی تعداد بھی انکے مقابل کمیت و کیفیت میں  کافی قلیل ہوتی ہے، اور وہ مروجہ روایتی و غیر روایتی ہتھیاروں سےاس طرح لیس نہیں ہوتے ہیں جیسے جدید ریاستیں ہوتی ہیں جبکہ انکی جنگجو صفات عموماً کسبی کم وہبی و فطری زیادہ ہوتی ہیں جبھی ان میں سیاسی تدبر،مدبریت،فھم و فراستاور نمٹنے کے لئے سازشی صلاحیتیں وغیرہ بھی ایک حدود و وسعت تک ہی  کام کرتی ہیں لہذا وہ درون ریاست یا پھر ایک خاص محدود رقبہ تک جھگڑوں کو وسعت دےسکتے ہیں پھر ایک حد سے زیادہ انکی رفتار و استعداد  بھی نہیں ہوتی ہے،مگر صاحب تحریر اپنی جگہ صحیح ہونے کے باوصف یہ امر فراموش کرگئے کہ جب کسی ریاستی میں بستے گروہ کی سیادت و قوت کسی بھی طریقے سے ریاست پر غلبہ پالیتی ہے تو وہ قوت دوسری ریاست تک جھگڑا لے جاسکتی ہے اور ساتھ ساتھ کسی ریاست و قبیلہ کو یکجان کرکے یا دونوں میں سے ایک دوسرے کو آلہ کار بنا کر جھگڑے کو بڑے خطے بلکہ دنیا بھر میں وسعت دے سکتی ہے،جیسے افغانستان نے پختون قوم کو نسلی، قبایلی و لسانی رشتہ کے تناظر میں اپنی عملداری قرار دیاتھا ،انھونے ماضی میں بار بار پاکستان کے سرحدی،قبایلی اور  شمال مغربی علاقوں پر اپنا حق جتایا تھا جبکہ  بھارت نے بھی اسی دعوے میں اسکی پشت پناہی کی تھی یوں دونوں کی پروان کردہ دہشت گردی کی اس لھر نے پاکستان کو بھت نقصان پہنچایا تھا اور یہ سرگرمی اور اتحاد تاحال جاری ہے، عین اسے طرح تحریک طالبان پاکستان  نے بھی ماضی قریب میں پشتون عناصر سے سرحد پار امداد حاصل کرنے کے لئے لسانی عنصر کو استعمال کیا تھا،پھر افغانستان میں حقیقی طالبان امارت اگر چہ مذہبی بنیاد پر تشکیل پایی تھی مگر اس پر بھی پشتون اکثریتی عنصر سیادت رکھتا تھا،ایسے ہی شمالی اتحاد کو وسطی ایشیا کے ازبک،تاجک،ہزارہ بلخصوص شیعہ فرقہ سے واستہ عناصر کی پشت پناہی حاصل رہی ہے،اور یہ عناصر شکلیں بدل بدل کر ریاست پر بھی غالب و اثر انداز رہے ہیں، لہذا اس دور تک کچھ تک یہ دعوی صحیح محسوس ہورہا تھا ،مگر بحرحال اقلیتیں اتحاد و وحدت میں عموماً اکثریت کے مقابل عمدہ کارکردگی میں آگے ہوتی ہیں،اکثریت جبتک عقل ،وحدت کو کام میں نہیں لاتی ہیں،جذبات سے لبریز رہ کر اکثریت کے زعم کا شکار رہتی ہیں، تب تک اقلیت اپنی مختصر وحدت سے انکی کمزوری کا اندازہ کرکے کامیابی حاصل کرتی رہتی ہیں اسی قسم کے عصبیتی دعوے ابن خلدون بھی صدیوں قبل کرچکا تھا،یہ عین ممکن ہے کہ امریکی سرخ ہندی چونکہ شمالی امریکہ کے سامنے ایک محدود متروک و ناکام مثال کے طور پر موجود تھے،جبھی ہنگٹنگٹن کو ایسا محسوس ہوا،اسی طرح افریقہ میں بوکو حرام شام عراق میں سنی عربیوں اور شیعہ عربیوں کی جتھے بندی کل مشرق وسطی میں بڑے ریاستی جھگڑوں کا سبب بن رہی ہیں،داعش نے کیسے عراق وشام تک کو ہلا کر رکھ دیا تھا،عین ایسے ہی کردش عنصر ایران،عراق،شام و ترکی ریاستوں و سیاستوں  میں بڑے جھگڑوں کا سبب بن رہا ہے۔معج

[4] یہ نقطہ کافی مضبوط ہے اگر چہ جدید معقولی ریاست چونکہ ریاستی معاہدوں،بندھنوں،مجبوریوں سے کافی محدود ہوچکی ہیں عالمی طاقتیں اپنے سلامتی کونسل کے جوے کھانے کے ذریعے تاش کے پتے پھینک کر ویٹو بازی کرتی رہتی ہیں،مگر بحرحال زبانی کلامی ہی صحیح ایسے امور اخلاقی و تشہیری طور قوم کے جذبات کو گرماتے رہتے ہیں، جیسے پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا افغان طالبان کی طرف جھکاو وانسیت،کشمیری،فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ان پر ہونے  ظلم پر انکا احتجاج کرنا ریاست پاکستان کا انکی اخلاقی حمایت میں بیاں دینا اس بیان کا ایک عمدہ اظہار ہے ، عین ایسے ہی امریکہ کا برطانیہ سے انیست رکھنا ،دونوں کا قریبی اتحاد،یورپ میں کیتھولک بیلٹ کے ممالک اور پروٹیسٹنٹ بیلٹ کے مماالک کا فرق اور ان میں باہمی تعلق پھر ایک اجتماعی یورپی ثقافت کے سبب پیدا ہونے والا  مشترکہ ورثہ و اتحاد اسکا کافی عمدہ اظہاریہ ہے۔

[5] ہم دیکھتے ہیں کہ جب روسی وفاق ٹوٹا اور وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں سمیت وہ ریاستیں بھی آزاد ہویئں جو روسی قدیم تاریخ سے زار کے دور تک روسی سرحدوں،نظریات،ثقافت ،تمدن سے روابط و تعلقات رکھتی آئیں تھیں،یا جہاں مشرقی راسخ العقیدہ (گریک آرتھو ڈاکس) کلیسا ان میں تاریخی مذہبی وحدت و سانجھے داری قایم کرتا  نظر آیا تھا،روس نے ان ریاستوں پر عین ایسے غلبا و اثر و رسوخ قایم کرنے کی کوشش کی جیسے وہ اپنے اشتمالی دور میں مشرقی یورپ کی کمیونسٹ ریاستوں پر قایم کرتا رہا تھا ،تو اسی تناظر کو اس نے دوبارہ نئی روح دینی چاہی چناچہ جب یوگوسلاویہ کے بعد چیکوسلاویہ،بوسینیا وغیرہ میں اس نے عیسائیوں کی مدد کرنا شروع کی جسکے سبب بوسینیا میں مسلمانوں کا جو اسلام سے ویسے بھی زیادہ واقف نہیں تھے کا کھلا قتل عام و نسل کشی شروع کی گئی،اس ضمن میں داغستان تک اس نے مسلمانوں کے خلاف قوتوں کی بلکل ایسے پشت پناہی کی جیسے آج وہ مشرق وسطی میں شام و ایران کی ریاستی پشت پناہی کرکے بلواسطہ اور بلاواسطہ مسلمانوں کے خون پر سیاست کررہا ہے،خیر یہاں جو روس کو سرحدی ،جغرافیائی،قربت و اثر و نفوذ حاصل تھا اسکے دم پر اس نے کبھی بھی وسطی اشیا اور مشرقی یورپ میں مسلمان راسخ العقیدہ گروہوں جماعتوں کو طاقتور ہونے نہیں دیا تھا،کیونکہ یہ زار کے دور سے آجتک کی اسکی مسلسل حکمت عملی کا حصہ ہے،چناچہ ہنٹنگٹن نے جو یہ اشارہ کیا کہ سعودیہ،ایران و ترکی نما ملکوں کی مدد میں انکا ثقافتی تعلق نمایاں کردار ادا کرہا تھا،یہاں کچھ چیزوں کو واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام کی ثقافت اسکی تہذیب یعنی اسلام کے اصول دین اور سیاست شریعہ کے تابع ہے،اسلام میں ثقافت و تہذیب میں کوئی ایسی دوئیت و تغیر نہیں پایا جاتا ہے جیسے جدید مقامی یا علاقائی ثقافتوں میں بعد پایا جاتا ہے،اسلام یورپ کے کلچر ڈایورسٹی ڈسکورس کو قبول نہیں کرتا ہے،اسلام ملت کی وحدت و اجتماعیت کو مد نظر رکھتا ہے،لہذا یہاں اسکی مراد ثقافت سے غالباً تہذیب ہی ہوتی ہے،ورنا یہ جنگی عالمی ڈسکورس اس فلاسفی میں چار خانے جڑاو نگینے کا کام نہیں کرپاتا ہے،اسکے علاوہ اسلام میں اصول دین اور فروع دین کے مابین  جو اصول کی اہمیت ہے وہ اسلام کو نظریاتی و عقایدی جنگ و جھاد کی بحث سے لاتعلق نہیں رکھتا ہے ،لہذا آج کی  اصل جنگ ہی نظریہ و عقیدہ کی ہے باقی سب تو اسی کے تابع ہیں۔معج

[6] اس مقام پر وہ بھی ثقافت کے ذیل تہذیب کے مدے کی طرف رجوع کرتا ہے اور پھر دونوں اصطلاحوں کو بڑہتی  ہوئی بحث و حوالوں کے ساتھ نعم بدل کے طور پر بروئے کار لاتا  رہتا ہے۔معج

[7] یہاں وہ نظریات و فروعی مسایل کو ثقافت کا ذیل بتاتا ہے جس سے ابھام بازی کی گنجایش پیدا ہوکر کسی معاملے کو دھندلا تو سکتی ہے مگر مسلک بازی کی کرشمہ سازی کو اسکے مطابق بالاتر تہذیب و ثقافت  دوری و بعد کے باوجود دباکر ثقافت کے ذریعے جوڑ دیتی ہے،اسکی کل تحریر سے عیاں ہے کہ وہ روس سے کافی خوفزدہ ہے اسے لگتا ہے کہ روسی سیاست بازی نئی شکل میں اسکی عالمی قوت کی تشکیل سازی میں حصہ لیگی،چناچہ سقوطِ وفاق کے بعد بھی روس مسلسل اپنی سیاسی ،حربی استعداد میں اضافہ کرکے غلبہ کی سیاست کو پروان چڑھا رہا ہے،اور آزاد ریاستوں کو جسمی آزادی کے باوجود سیاسی و حربی غلامی میں لینا چاہ رہا ہے۔معج

[8] ہنٹنگٹن کی یہ پیشن گوئی  قریباً تیس سال بعد بھی پوری نہیں ہو پائی ہے بلکہ اس معاملہ پر الٹی کشیدگی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے

[9]۲۰۰۳۔مترجم:محمد احسن بٹ:صہ:۳۸،۳۹) ہنٹنگٹن،سیمویل ۔پی۔تہذیبوں کا تصادم۔مثال۔لاہور۔

(اسکے ساتھ میں نے اصل کتاب سے دیکھ کر اس ترجمہ کو بامعنی بنانے کے لئے دوبارہ ترجمہ کیا ہے)

[10] الاحد:اشاعت عدد:۶۵۰:

[11])The Monk: A Romance is a Gothic novel by Matthew Gregory Lewis, ایم۔جی۔لیوس:خانقاہ:اوردو مترجم :،ظھر الحق علوی(

یہ اصل کامل ناول کا ترجمہ نہیں بلکہ اسکا اختصار ہے اس میں چرچ میں پائی جانے والی جنسیت کو نشانہ بنایا گیا ہے

[12] قطب،محمد۔اسلام اور جدید ذہن کے شبھات ْالبدر پبلی کیشنز ۔لاہور۔۲۰۱۸۔صہ:۲۷،۲۵۸۔

[13] Sylvia Helwett.

[14] Hewlett,Sylvia ,A.A lesser life.michael Joseph.london.1987.

[15] Anne Moir.

[16] Moir,Anne&jessel,David.Brain sex:The Real Difference  Between Men And women.1991.

[17] Lionel,Tiger.The possible orgins of Sexual Discrimination :The Impact Of Science On Society.XX.No:1.

[18]  The female Eununch.

[19] Germaine Greer.

[20] The Whole Women .

[21] Greer,Germaine.The Whole Women.Anchor Books.NewYork.2000.

[22] Mary Pipher.

[23] Pipher,Mary. Reviving Ophelia :Saving The Selves of Adolescent Girls.Ballantine Books.Newyork.1994.

[24] Russel,Bertrand.Impact Of Science On Society.Newyork.

[25] Adams ,Gerald.Physical Attractivness Toward A Developmental  social Psychology of Beauty.Human Development.pp:217..239.

[26] Post Men,Neil. Conscientious Of Objections: Stirring  up trouble about language ,Technology and Education.vintage.Newyork.1992.

[27] bullock ,Katherine .Rethinking Muslim Women And Veil. Virginia .2002. Cited : Michel,Leon.(1883:tunis) .

[28] Kinsey.Alferd C.Pomeroy ,Wardell B.And Martin ,Clyde E. Et.alSexual Behavior in Human Male.W.B.Saunders.Philadelphia.1948.

[29] Gorachev,Mikhail.Perestroika:New Thinking For Our  Country And World.Harper and Row.Newyork.1988.

[30] Kristov,Nikolas D.Saudis In bikinis.Newyork Times.25.Oct.2002.

[31] Esposito ,John L.Islam:The Straigh Path.Oxford University Press.NY.1988.

[32] Joseph wood Krutch

[33] Lewis mumford.

[34] Joseph Fletcher .

[35] Duncan Williams.

[36] مذید حوالوں اور بحث کے لئے دیکھیں:طارق جان:سیکولرازم :مباحث و مغالطے۔

[37] Lesbianization.

[38] Sodomy.

[39] نو بچہ دانی ::No Opinion.