شب برات کے وجود کا ایک علمی و تحقیقی جایزہ
از:ڈاکٹر محمد علی جنید
یہ ناچیز چونکہ خود ایک پیر
کا نواسا رہا ہے اور ایک بدعات میں جری بریلوی گھرانے اور جادو ٹونے پر یقین کرنے والے گھرانے کا چشم
و چراغ رہا ہے،جبھی اسے اس مسلک اور اہل بدعت کے عقاید کا حال بخوبی معلوم ہے،
لہذا مجھ سے زیادہ اور کون ان بدعات اور ان سے منسوب خرافات کو جان پایگا ،جب مجھے
ایسے تہواروں پر حلوے مانڈے اور شیرمال بانٹنے کے لئے ایک علاقہ کے چالس پچاس گھرانون میں ثواب کی نیت سے بھیجا
جاتا تھا ،تو ایسی حالت میں کئی سو شیرمال
،قورموں اور بریانی کا بوجھ اٹھا کر گھر گھر حکم کی بجاآوری میں جانا اور اسکا درد
برداشت کرنا مجھے بخوبی یاد ہے۔
چناچہ ماسوائے اس فرد کے جو
اہل بدعات کے ہاں پیدا ہوکر سچ و جھوٹ ،محقق و غیر محقق خبر موصول ہونے کے باوجود ماں و باپ ،دادا و چاچا کے عقیدوں کو
برا جانک ر بھی ان پر جمے رہنے والا ہی مجھ سے زیادہ ان چیزوں سے واقف ہوگا،کیونکہ
میں تحقیق کے طویل سفر میں تحقیق کو عمل میں لانے کے لئے تحقیق کے عین مطابق نا
صرف ان بدعات سے کم عمری یعنی میٹرک سے دور رہا تھا بلکہ ان بدعات سے بچنے کی ترغیب
دوسروں کو بھی دیتا رہا تھا ،مگر وہ بدعتی
جو تاحال ان خرافات اور غیرمحقق امور میں پھنسا ہو تو اسکو ایک لاکھ توپوں کی سلامی
پیش کی جائے ، کیونکہ ابلیس کو بھی اپنے موقف کی غلطی کا حال معلوم ہوگیا تھا مگر اپنے رب کی توحید میں اس نے حرف آنے نا
دیا،مگر اپنی گستاخی میں دیگر مابعد آنے والوں کو اپنے گروہ میں شامل کرنے کی
اجازت اس نے اپنے گمراہی کے منصوبے کی تکمیل کے لئے اول روزسے ہی حاصل کرلی تھی۔
اب ہم پندرہ شعبان کی رات اور اسکی مناسبت سے موجود عقاید و اعمال اک
جایزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ہم دیکھتے ہیں کہ فارسی زبان کے لفظ شب کے معنی رات کے
لئے جاتے ہیں جبکہ برات سے مراد قطع تعلق،بندھن ٹروانا یا آزادی حاصل کرنے کے ہیں،چناچہ
اس رات کے ماننے والے شریعت سے آزادی حاصل کرکے بدعت و گمراہی کی غلامی اختیار
کرکے خود کو ڈھیڑھ مذہبی اور باپ داداوں کی روحوں کو خوش کرنے قبرستان جا پہنچتے
ہیںا ور قبرستانوں کو حوروں کی طرح سجا کر دلکی تشفی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔
شب برات کی رات کی بابت علما کرام اور عامتہ الناس میں بہت زیادہ غلط
فہمیاں پائی جاتی ہیں،علمائے بریلویہ کی رو سے اس رات کے جواز میں صحیح ،غلط،،ضعیف
و موضوع جو مل جائے اس سے مسلہ کی قوت کو امداد فراہم کرکے اسکا جواز ثابت کرنا ہی
درست عمل ہے۔روافض کی رو سے ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ
کو امام مہدی کی پیدائش ہوئ تھی چناچہ ، وہ اس رات امام مہدی کے جلد آنے کی دعائیں
کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں ،جبکہ انکے برخلاف علمائے دیوبندیہ میں اس بابت دو
گروہ ملتے ہیں ایک حیاتی دوسرا مماتی ہم دیکھتے کہ حیاتی گروہ جس میں چوٹی کے قدیم
علما جن پر دیو بندیت کا استحکام ہے ،کہتے ہیں کہ اگر چہ اس رات سے بہت سی بدعات
وابستہ ہیں مگر اسکی کچھ نا کچھ اصل صحیح و ضعیف احادیث سے ثابت ہے،یہ گروہ بریلویوں
میں موجود اس رات کو اجتماعی طور پر منانے،قبرستان جانے کا تو زیادہ قایل نہیں
ہے،مگر بحرحال اس رات کو عبادت کا انفرادی طور پر قایل ہے۔
بریلویہ تو خیر اس بابت صحیح و غلط کی تفریق کی عقل سے قاصر ہیں چناچہ
یہ لوگ روایات کی تحقیق و صحت کی جگہ تعداد روایات سے اپنے موقف میں مضبوطی پیدا
کرنے کی کوشش میں ہر حد پھلانگ لیتے ہیں،اس ضمن میں انھیں مواہب لدنیہ ،خصایص
الکبری یا اخبار مکہ کی الٹی سیدہی رطب و یابس روایات لینے میں بھی کوئی شرم و محصوس نہیں ہوتی ہے۔
خیر یہ سارے علما جتنی چاہے قوت لگالیں یہاں اس رات کو جاگنے اور قبرستان جانے کے اجتماعی
اعمال و رسومات کا جواز نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ سے لیکرتابعین و تبعہ تابعین کے
دور تک نہیں ملتا ہے۔ہاں اتنی بات اصل بحث
میں ضرور موجود ہے کہ اس رات ایک دفعہ عام معمول کی طرح نبی اکرم خاموشی سے
قبرستان گئے تھے،مگر نا انھونے لوگوں کو اسکی ترغیب دی،نا انکو اس خبر لگنے دی،اور
نا صحابہ نے اسے منایا،مگر ساتھ ساتھ اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ نبی اکرمﷺ
استقبال رمضان کے ضمن میں رمضان کی ابتدا سے کچھ قبل تک روزے رکھا کرتے کرتے تھے،چناچہ
اسکا رد کرنا ضروری نہیں محسوس کرتا ہوں۔
چناچہ: اس بحث میں شب برات اور
پندرہ شعبان کو دو الگ الگ مقام اور منھج سے دیکھنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے،روافض نے اپنے بارہویں
امام کے اعزاز میں اسکی فضلیت کا سامان پیدا
کیا ہے ، یہ وہ وقت تھا جب روافض عباسی سلطنت کے عہد زوال میں آل بویہ کے سبب سیاسی
قد و قامت حاصل کرنے لگے تھے،ان میں نت نئی رسومات اجتماعی طور پر منانے کا چلن عام ہوچکاتھا تو
اہل بدعات کے سلف نے اس رات کو ان سے اخذ کرلیا ،مگر چالاکی یہ دکھائی کہ پندرہ
شعبان سے متعلقہ ضعیف و موضوع روایات سے اپنا مفروض شدہ دعوی ثابت کرنے کی کوشش کی خوش قسمتی سےانہیں حدیث
عایشہ میسر آگئی ،جس میں نبی اکرم کی تلاش میں وہ اپکو گھر میں نا پاکر قبرستان تک
جاپہنچی اور وہان اپکو قبرستان والوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے دیکھا،حلانکہ عایشہ
ؓ کی اس روایت سے صاف واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ خاموشی سے گئے تھے،اپنے اس رات کو
قبرستان جاکر یا اس سے قبل بعد کبھی اسکی ترغیب نہیں دی،،مابعد صحابہ کرم یا عایشہؓ
سے اخذ روایت کرنے والوں سے اتنے بڑے پیمانے پر اجتماعی عبادت کا معمالہ آگے کبھی دیکھا سنا نہیں گیا،،نا ہی عایشہؓ کو خود اس روایت پر کبھی عامل دیکھا گیا،،یا اس سے وہ معنی و
مفہوم لیتا پہچانا گیا جیسا کہ اہل بدعات کا معمول ہے،اس روایت کی اصل آخر میں
بیان کی جایگی۔
ایک اور طرفہ تماشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اس رات کو اور لیلتہ القدر
کو باہم ایک جان کر خلط ملط کردیتے ہیں
حلانکہ فیصلہ اور برکت والی رات لیلتہ القدر کی رات ہے یہی وہ رات جس میں قران اترنا شروع ہوا تھا ،اور
اسے رمضان کے آخری عشرے میں طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے،مگر اہل علم
کا ایک گروہ ستایسویں شب کو اس رات کو
مقرر کرتا دیکھتا ہے۔
اسی طرح اج کل کچھ لوگ
تصوف سے بدعات تک کو امام ابن تیمیہ سے ثابت کرنے کے لئے خوب ہاتھ پیر مار رہے ہیں
یہاں بھی کچھ لوگوں نے انکے قول سے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی چناچہ امام ابن تیمیہ کے متعلق دعوی کیا گیا ہے
کہ انھونے اس رات عبادت کو پسند کیا
ہے،چاہے انفرادی طور پر ہو یا چاہے اجتماعی طور پر ہو،اول تو امام صاحب کی ہر بات
کی تقلید کرنا اور انکے ہر موقف کو اپنانا کوئی فرض عمل نہیں ہے، مگر ساتھ یہ بھی
سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کیا نصف شعبان کی
رات کو عبادت کا جواز تسلیم کر رہے ہیں یا شب برات کا وجود مان رہے ہیں ، یہ تو واضح ہے کہ اس رات کی بدعات اور ،اس سے
متعلقہ عقاید و افکار کو انھونے کبھی تسلیم
نہیں کیا ہے اور نا نوافل کے لئے اجتماعی طور پر مساجد میں فجر تک جمع ہونے اور
جمع ہوکر قبرستان میں مرد زن کے اجتماع و اختلاط کو تسلیم کیا ہے۔
فتاوی امام ابن تیمیہ:ج:۲۳:صہ:۱۳۱
عین
اسی طرح عبدالرحمان مبارکپوری نے بس اتنا مانا ہے کہ مختلیف روایتوں کے مجموعی
کلام سے پندرویں شعبان کی رات کی کسی اصل
کا حال معلوم ہوتا ہے انھونے بھی،کہیں بھی
شب برات کے نفس مضمون اور اسے متعلقہ خرافات کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
(علامہ عبدالرحمان مبارکپوری: تحفتہ الاحوزی:جہ:۲:صہ:۵۲،۵۳)
یہی موقف کافی حد تک،بنوری ٹاون کے فتوی اور مفتی تقی عثمانی کے فتوے
سے معلوم ہوتاہے۔
ہم
دیکھتے ہیں کہ قران حکیم بھی ایک بابرکت رات کا ذکر کرتا نظر آتا ہے چناچہ ارشاد
خداوندی ہے :
بےشک ہم نے اس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے
(الدخان:۴۴)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قران اس سے مراد شب معراج یا شب برات لیتا
ہے ؟،بلکل نہیں کیونکہ قران کی تکمیل اور عہد صحابہ میں ایسی کسی راتوں اور ان سے
متعلقہ رسومات و بدعات کو منانے کا کوئی تصور دور دور تک نہیں ملتا تھا۔اب ہم یہ دیکھنے
کی کوشش کرتے ہیں کہ اس رات سے قران کس رات کو عزت و شرف سے منسوب کرتا دکھتا ہے :
چناچہ اس ضمن میں ارشاد الہی ہے کہ
بےشک ہم نے اس (قرآن) کو لیلة القدر میں نازل کیا۔
(القدر:۱)
آپ
نے دیکھا کہ اول اللہ ایک بابرکت رات کا تذکرہ کرتا ملتا ہے پھر اس بابرکت رات سے
مراد واضح طور پر لیلتہ القدر کو لیتا ملتا ہے۔اب یہ تو واضح ہوگیا کہ قران کی
مراد بابرکت رات سے لیلتہ القدر ہے جسکا زمان رمضان کا مہینہ ہے۔
جناب اسامہ بن زید ؓ کے دماغ میں ایک دفعہ سوال پیدا ہوا کہ نبی اکرم ﷺ
شعبان میں کیون اتنے روزے رکھتے ہیں تو
انھونے اپنا اشکال نبی اکرمﷺ کی جناب میں پیش کیا تو نبی اکرمﷺ نے جواب میں جو فرمایا
وہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
سیدنا اسامہ بن زید رضی الله عنه نے رسول الله صلی الله عليه وسلم سے
پوچھا کہ سب مہینوں سے زیادہ شعبان میں روزے کیوں رکھتے ہیں؟
تو فرمایا:
یہ (شعبان) وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ
وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال پروردگار کے پاس اٹھائے جاتے ہیں میں چاہتا ہوں
میرا عمل اس وقت جائے جب میں روزے سے ہوں۔
(نسائی:۲۳۶۱:کتاب الصیام)
اس حدیث اور نبی اکرم ﷺ کے معمول سے کل شعبان میں روزے وقفے وقفے سے
استقبال کے لئے رکھنا سنت ہے ناکہ پندرہ شعبان کو اس روز سے مخصوص کرکے سنت سمجھنا
ثابت نہیں ہے۔
چناچہ سنت ہر ماہ کی ۱۳، ۱۴
اور ۱۵ تاریخ (ایام بیض) کے روزے رکھنا مراد ہے. سنت شوال کے ۶ روزے، ۹ محرم کے ساتھ ۱۰ یا ۱۱ محرم کے روزے رکھنا ہے سنت ، ۹
ذی الحج کا روزہ رکھنا ہے، اور عام دنوں میں پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھنا سنت سمجھا جاتا
ہے۔
اس رات کو مساجد جاکر اجتماعی و انفرادی طور پر نماز پڑھنے کا ایک چلن
عرصہ سے عبادتی عقیدہ بن گیا ہے جسے اکثر وہ لوگ ثواب سمجھ کر پڑھتے ہیں جو ایسی
راتوںا ور تراویح کے علاوہ کبھی گھر اور مساجد میں نماز پڑھتے دیکھے نہیں گئے ہیں
چناچہ ذیل میں قدیم اہل علم کا اس بابت موقف ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
"امام فتنی "تذکرۃ
الموضوعات" میں کہتے ہیں کہ:
نصف شعبان کی رات کیلئے ایجاد
کردہ بدعات میں "ہزاری نماز" بھی ہے جس میں سو رکعت دس ، دس رکعات کی
شکل میں باجماعت ادا کی جاتی ہیں، اس نماز کا جمعہ اور عید کی نماز سے بھی بڑھ کر
اہتمام کیا گیا ہے، حالانکہ اس کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، سب یا تو ضعیف
ہیں یا پھر خودساختہ ہیں، اگرچہ ان روایات کو "قوت القلوب "یا "احیاء
علوم الدین" میں ذکر کیا گیا ہے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے، اسی طرح
تفسیر ثعلبی میں یہ کہا گیا ہے کہ یہی رات لیلۃ القدر ہے اس سے بھی دھوکہ نہیں
کھانا چاہئے۔
فتنی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا گفتگو کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
"’’عوام اس خودساختہ نماز کے
جھانسے میں اتنی گرگئی کہ کچھ لوگوں نے شب بیداری کیلئے کافی مقدار میں ایندھن ذخیرہ
کیا، اس شب بیداری کی وجہ سے فسق وفجور پر مشتمل ایسے کام ہوئے جنہیں بیان نہیں کیا
جاسکتا، حتی کہ کچھ اولیائے کرام کو عذاب الہی کا خدشہ ہوا اور صحراؤں کی طرف دوڑ
نکلے۔
سب سے پہلے اس نماز کی ابتدا بیت المقد س میں ۴۴۸ ہجری کو ہوئی تھی۔
زید بن اسلمؒ کہتے ہیں:
ہمارے مشایخ یا فقہائے کرام کبھی بھی شب برات وغیرہ کی فضیلت کے متعلق
توجہ بھی نہیں کرتے تھے۔
ابن دحیہؒ کہتے ہیں:
نماز [شب] برات کی تمام احادیث من گھڑت اور خودساختہ ہیں، ان میں سے
صرف ایک مقطوع ہے، اور جو شخص کسی ایسی روایت پر عمل کرے جسکا من گھڑت ہونا ثابت
ہوچکا ہو، تو وہ شیطان کا چیلہ ہے۔
فتنی:تذکرہ الموضوعات:صہ:۴۵
علامہ زین الدین عراقیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’متاخر صوفی حضرات کی کتب میں یہ نماز بہت مشہور ہے، مجھے اس نماز
اور نماز کی دعا کے بارے میں احادیث سے کوئی مستند دلیل نہیں ملی، ہاں یہ صوفی مشایخ
کا عمل ہے، جبکہ ہمارے کچھ احباب کا کہنا ہے کہ: مساجد وغیرہ میں مذکورہ راتوں کی
شب بیداری کیلئے جمع ہونا مکروہ ہے‘‘۔
امام ابن العربی مالکی (وفات: 543 ھ) پندرھویں شعبان کی رات کی تمام
احادیث کو مردود قرار دیتے ھوئے رقمطراز ہیں:
"لیس فی لیلۃ النصف من شعبان حدیث یعول
الیہ لا فی فضلھا ولا فی نسخ الآجال فیھا فلا تلفتتوا الیھا"۔
’’نصف شعبان کی شب کے بارے میں کوئی ایسی حدیث نہیں جس پر اعتماد کیا
جاسکے۔ نہ اس شب کی فضیلت میں اور نہ موت و زندگی لکھنے کے بارے میں، سو ان روایات
کی طرف قطعا توجہ نہ دو۔‘‘
تفسیر احکام القرآن: جلد: :2
نصف شعبان کے روزے سے متعلق روایات::
محدث عبد الرحمن بن عبد الرحیم مبارکپوری لکھتے ہیں:
لم اجد فی صوم لیلۃ النصف من شعبان حدیثا مرفوعا صحیحا اما حدیث علی
الذی رواہ ابن ماجۃ فقد عرفت التضعیف جدا۔
’’میں نے نصف شعبان کے روزے کے بارے میں کوئی
حدیث صحیح مرفوع نہیں پائ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت ابن ماجہ نے روایت
کیا ہے وہ تو نہایت ضعیف ہے۔‘‘
تحفۃ الاحوذی: جلد ۲ :صفحہ: ۵۳۔
نصف شعبان کی نماز:
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نصف شعبان کی مخصوص نماز کا مسلہ ہے جس میں
ایک نماز گھڑ کر اس رات سے مخصوص کردی گئی ہے
چناچہ:
علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ:
قال العینی وما احادیث التی فی صلوۃ النصف من شعبان نذکر ابوالخطاب بن
دحیہ انھا موضوعۃ
علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں کہ نصف شعبان کی نمازوں کے جتنی احادیث ہیں
تو ابوالخطاب بن دحیہ فرماتے ہیں یہ سب منگھڑت ہیں۔
فتح الملہم شرح
مسلم: جہ:۳ صہ: ۱۷۴۔
عین
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نصف شعبان کی شب کو مغفرت کی رات قرار دینے کے لیے
"جاھل لوگ" ترمذی سے روایت نقل
فرماتے ہیں کہ:
نصف شعبان کی رات کو اللہ بنوکلب کی بھیڑیوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں
کی مغفرت فرماتا ہے۔لیکن اسی روایت کے ناقل اسکو ضعیف قرار دیتے ملتے ہیں ،جسکی
تحقیق آخر میں آئیگی۔
نصف شعبان کی شب بارے ابن ماجہ کی سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ
سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب میں طلوع فرماتا ہے اور مشرک کینہ پرور کے
علاوہ سب کی مغفرت فرماتا ہے"۔
اس روایت کے چار راوی قطعا مجھول اور ایک شدید ضعیف۔ بے بنیاد روایت
ہے۔ علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی(ناصبی ،منکر حدیث) اپنی کتاب "شب براءت کیا
ہے" اس روایت کے ناقل عبداللہ ابن لہیعہ کی بابت لکھتے ہیں کہ:
ابن عدی اور ذھبی کہتے ہیں کہ ابن لہیعہ کی یہ روایت منکر ہے۔
عبد اللہ بن لہیعہ کبھی تو دعوی کرتا ہے کہ یہ روایت زید بن سلیم(اسلم)
سے مروی ہے اور کبھی کہتا ہے ضحاک بن ایمن سے مروی ہے۔ مطلب یہ روایت سخت مضطرب
نوعیت کی حامل ہے۔واضح رہے ابن لہیعہ کی روایت جب عبادلہ سے مروی ہو تو مقبول ہوگی
ورنا اسے رد کردیا جائیگا۔
اسی طرح عایشہؓ سے ایک روایت پیش کی جاتی جسے ذیل میں تحقیق کے ساتھ
پیش کیا جاتا ہے:
وَعَنْ
عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَل تدرين
مَا هَذِه اللَّيْل؟» يَعْنِي لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ قَالَتْ: مَا
فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ: «فِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كلُّ مَوْلُودٍ مِنْ
بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ وَفِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ مِنْ
بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ وَفِيهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ وَفِيهَا
تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ» . فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ
يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ تَعَالَى؟ فَقَالَ: «مَا مِنْ أحد
يدْخل الْجنَّة إِلَّا برحمة الله تَعَالَى» . ثَلَاثًا. قُلْتُ: وَلَا أَنْتَ يَا
رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى هَامَتِهِ فَقَالَ: «وَلَا أَنَا إِلَّا
أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ» . يَقُولُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعْوَات الْكَبِير
سیدہ عائشہ رضی
اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے
عائشہ) کیا تم جانتی ہو یہ (یعنی نصف ۱۵ شعبان کی رات) کون سی رات ہے؟ سیدہ عائشہ
نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس میں کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اس رات میں بنی آدم کے اس سال پیدا ہونے والے بچوں کے بارہ میں لکھا جاتا ہے اس میں
بنی آدم کے اس سال ہر فوت ہونے والے انسان کے متعلق لکھا جاتا ہے اس میں ان کے
اعمال (اللہ تعالیٰ کی طرف) اٹھائے جاتے ہیں اور اس میں ان کا رزق نازل کیا جاتا
ہے۔
مشکاۃ المصابیح،
کتاب الصلاۃ، باب قیام شھر رمضان رقم: ۔۱۳۰۵
اسنادہ ضعیف ،
رواہ البیھقی فی الدعوات الکبیر (لم اجدہ فی المطبوع منہ) * و رواہ البیھقی فی شعب
الایمان (۳۸۳۵) من طریق العلاء
بن الحارث عن عائشۃ بہ وھو منقطع و رواہ البیھقی فی فضائل الاوقات (ص : ۱۲۶ ، ۱۲۸ ح ۲۶) نحوہ مطولاً و فیہ النظر بن کثیر العبدی وھو ضعیف
و للحدیث شواھد ضعیفۃ
ہم دیکھتے ہیں کہ امام خطیب و بغوی نے اسے امام بھیقی سے لیا ہے یہ
روایت شعب الایمان میں بھی ملتی ہے جس میں عایشہؓ کا طرق علا بن حارث سے منقطع
ہونے کے سبب ثابت نہیں ہے۔علامہ البانیؒ نے بھی اس پر شک کے سبب ضعف کا حکم لگایا
ہے یہ حکم مولانا اسمعیل سلفیؒ نے بھی روایت کے منقطع و غیر ثابت ہونے کے سبب
لگایا تھا۔یہی حکم اس پر حافظ زبیر علی زئی ؒ نے لگایاہے ، اسی طرح علامہ صالح المنجد نے بھی ایک سوال
میں اس رات کو غیر ثابت قرار دیکر بدعت مانا ہے۔
اسی طرح ترمذی کی حدیث عایشہ ؓ پر جو مقدمہ کھڑا کیا جاتا ہے اسکو ذیل
میں پیش کرکے اسکا تحقیقی حکم بیان کیا جاتا ہے :
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا الحجاج بن ارطاة، عن يحيى بن ابي كثير، عن عروة، عن عائشة، قالت: فقدت رسول الله
صلى الله عليه وسلم ليلة، فخرجت فإذا هو بالبقيع، فقال: " اكنت تخافين ان
يحيف الله عليك ورسوله؟ " قلت: يا رسول الله، إني ظننت انك اتيت بعض نسائك،
فقال: " إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر
لاكثر من عدد شعر غنم كلب ". وفي الباب عن ابي بكر الصديق. قال ابو عيسى:
حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج، وسمعت محمدا يضعف هذا
الحديث، وقال يحيى بن ابي كثير: لم يسمع من عروة، والحجاج بن ارطاة، لم يسمع من
يحيى بن ابي كثير۔
.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں
کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا۔ تو
میں (آپ کی تلاش میں) باہر نکلی
تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی
بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ
تعالیٰ پندرھویں شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور
قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
جن لوگوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے انکی
علمی کمزوی کیا ہی غضب کی اہلیت کی حامل ہے،اور جنکو عبی چھوڑو اوردو بھی شاید
نہیں آتی ہے،کیونکہ اس روایت کا انتساب جن امام ترمذی کی جانب منسوب کیا جاتا ہے
وہ ایک تو اس روایت کو منفرد ،یکتا فرد واحد حجاج بن ارطاۃ سے مروی ہونا بیان کرتے
ہیں۔اسی حدیث کے ذیل وہ خود اسکی اور بھی علت پیش کرتے ملتے ہیں۔
:
حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج،
وسمعت محمدا يضعف هذا الحديث، وقال يحيى بن ابي كثير: لم يسمع من عروة، والحجاج بن
ارطاة، لم يسمع من يحيى بن ابي كثير۔
امم ترمذی اس حدیث میں کہتے ہیں کہ
میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا ہے، نیز فرمایا: یحییٰ
بن ابی کثیر کا عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ کا یحییٰ بن ابی کثیر سے سماع نہیں، ہے۔اس باب میں ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔یعنی
یہ حدیث منقطع ہے وہ پہ در پہ۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1389) // ضعيف
سنن ابن ماجة برقم (295)، المشكاة (1299) الصفحة (406)، ضعيف الجامع الصغير۔ (1761)
//
قال الشيخ زبير على زئي: (739) إسناده ضعيف / جه 1389
حجاج عنعن (تقدم: 527) وللحديث شواھد، كلھا ضعيف
اس مسلہ کو یار لوگوں نے طرق جمع کرکے سنبھالنے کی بہت کوشش کی ہے تاکہ مذہبی کاروبار چلتا رہے اور یہ بات بھی کہی ہے کہ جب ضعیف حدیث زیادہ ہوں تو ایک دوسرے کو تقویت
دیتی ہیں،اور اسناد جمع کرنے سے ضعیف روایت حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔دیو بندیوں اور
بریلویوں کا اکثر گروہ اور احناف کا ایک طایفہ اسکے حق میں گیا ہے، مگر حدیث و رجال
کے محققین شیخ زبیر علی زئیؒ،شیخ احمد شاکرؒ غازی ،عزیر،ارشاد الحق اثری، اور
محدثین قدیم کی ایک جماعت نے اسکا رد کیا اسی طرح حافظ ابن حجر نے اسکی کچھ شروط
بیان کی ہیں،حدیث حسن کے جامع امام ترمذی نے اسے ضعیف و منقطع مانا ہے چناچہ
مزکورہ بالا افراد نے ان شروط پر بحث کی ہے،جنکےسبب ایسی روایتیں مقبول ہوکر حسن لغیرہ
بن پاتی ہیں،لہذا ان ذہنی محنتوں کا کوئی معلقولی نتیجہ نکل نہیں پاتا ہے ۔مگر ان
اصحاب نے یہان سیدھی سادھی کسی شرط کے بغیر جمع تفریق سے معاملہ سنبھالنا چاہا ہے۔
احناف و دیو بند میں شب برات کا سب سے
عمدہ علمی تعاقب علامہ رشید احمد لدھیانوی ؒ نے فرمایا ہے اور سچ یہی ہے کہ انھونے
تحقیق کا حق ادا کردیا ہے،اسی ضمن میں
انکا مقوف مفتی تقی عثمانی کے موقف سے زیادہ محقق اور مدلل ہے جنکو شوق ہو وہ اس
ضمن میں احسن الفتاوی کو دیکھ سکتے ہیں۔
یہ روایت خیر خود اسکے نقل کرنے والے کے سبب کئی علتوں کے سبب ضعیف ہے بلکہ اسے حافظ زبیر
علی زئیؒ اور علامہ البانی دونوں نے اسے ضعیف کہا ہے،علامہ علامہ البانیؒ نے اسے
ضعیف مشکوۃ،ضعیف ابن ماجہ و ضعیف ترمذی میں ضعیف کہا ہے،حافظ زبیر علی زئی کے
مطابق اسکے کل طرق ضعیف ہیں۔ ۔
یوں اس کل بحث پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں
کہ شب براۃ مھدی نامی شیعہ امام کے اعزاز میں منائی جاتی ہے، جبکہ اہل سنت کی محقق
قدیم رائے کی رو سے اسکو منانا سخت بدعت ہے اور سلف سے اسکا ثبوت ثابت نہیں ہے،ہاں
شعبان کے مہینے میں پندرہ شعبان کی تخصیص کے بغیر استقبال رمضان میں سنت جانکر نبی
اکرمﷺ کے اتبع میں کچھ روزے رکھنا جایز ہے،مگر اسکے لئے جمع ہوکر مساجد جانا
چراغان کرنا،اسے شب برات سے مخصوس کرنا ثابت نہیں ہے،بلکہ سخت بدعت ہے،اسی طرح اس
رات اعمالوں کی رپورٹ کارڈ بننے کی کوئی صحیح روایت نہیں ملتی ہے،اس رات کی مناسبت
سے کسی قسم کی صلواۃ تسبیح پڑھنا بھی ثابت نہیں ہے،پتے گرنے مردوں کا فیصلہ ہونے
کی کوئی روایت ثابت نہیں ہے ،عین ایسے نبی اکرمﷺ کا قبرستان جانا بھی ثابت نہیں
ہے۔جن لوگوں نے عایشہ ؓ کے نام سے یہ مقدمہ گھڑا انکو شرم کرنی چاہئے بلکہ انکو
عایشہ ؓ کی بدعات مخالف صحیح و ثابت شدہ روایتوں کو لیکر اسے رد کرنا چاہئے۔
اسی طرح پتوں کے جھڑنے والی
یا فیصلے کرنے والی رات کے متعلق بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے یہ سب ضعیف و موضوع روایتیں ہیں اس رات میں نوافل اور ان کہ ثواب والی سب
احادیث من گھڑت ہیں یا کچھ جو ہیں وہ ضعیف ہیں۔
صحیحین میں اماں عائشہ رضی اللّٰه عنہا سے مروی ہےکہ :
’’اللّٰه کے رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ہے کہ: جس نے ہماری اس شریعت میں کوئی نئی چیزایجاد کی جواس میں سےنہیں ہے تو وہ
لائق رد ہے‘‘بلکہ رصحیح مسلم کے الفاظ تو
الٹا یہ ہیں کہ:
’’جوکو ئی ایساعمل کرے جو دین سے بیگانہ عمل ہو تو وہ
مردود (رد کیا ہوا) ہوگا‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ :
صحیح مسلم کے اندر جابر رضی اللّٰه عنہ سے مروی ہے کہ:
’’ اللّٰه کے رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم جمعہ کےخطبہ
میں فرمایا کرتے تھے :سب سے بہترین کتاب اللّٰه کی کتاب ہے اور سب سے بہترین راستہ
محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم کا طریقہ ہے اورسب سے برے امور دین میں ایجاد کردہ نئی
باتیں ہیں ( جنہیں بدعت کہتے ہیں ) اور ہر بدعت ضلالت وگمراہی ہے “۔
لہذا اس تمام بحث کے بعد جسکو ڈھونڈھنے اور لکھنے میں
ہماری رات نکل گئی کوئی ہٹ ڈھرمی سے کام لے تو اسکو دس ہزار توپوں کی سلامی شیطان
کی جانب سے قبول ہو۔